ہم تو اسی تمہارے سچ۔۔۔

مجید امجد


ہم تو اسی تمہارے سچ کے کباڑ میں تمہارے ساتھ یہیں پر کرم کرم بستے ہیں
تم کیا جانو۔۔۔
اکھڑی ہوئی جڑوں والی دیواریں گرتے گرتے ماتھے جوڑ کے جس کونے میں ٹھٹک گئی تھیں
وہیں کہیں وہ چھوٹی سی میری دنیا تھی۔۔۔ یہ بسرام تو تیاگ میں مجھ کو ملا تھا۔۔۔
’’اور تمہیں کیا چاہیے ۔۔۔ مزے مزے سے بیٹھ کے
اپنے دانت اب کچکچاؤ تم اندھیروں سے اس بھرے ہوئے چھوٹے سے ڈبے میں
یہ چھت جس پر ڈھکنا ہے
چونک کے میں نے دیکھا، گلتے ، بھربھرے کاغذ، اک میری نظم کے سارے حرف
اب ان کے جبڑوں میں تھے
اور تب میں نے سوچا، دھنسی پرانی لحدوں میں بل کھاتے کرمکوں کی خوشدامنیں
دیمکیں سچ کہتی ہیں
جو اس گدلی یکسوئی میں بیٹھ کے کالی روشنائی کے ریزوں کو یوں کرم کرم چبتی ہیں
لاکھ حرفوں میں علموں کا جو گودا تھا، اب وہ ان دانتوں کی کترن ہے ۔۔۔
تلواروں کی نوکوں سے لکھے ہوئے لفظوں کی صورت میں سرسراتی زنجیریں اب
ان آنتوں کی اترن ہیں
سارے لیکھک اپنی لکھتوں میں پس گئے ان جبڑوں کے بیچ۔۔۔ ان سب پر
دھوپ کفن تھی
دیمکیں سچ کہتی ہیں۔۔۔ واقعی باہر موت کی شرطوں پر جیتے ہیں جینے والے ۔۔۔
اکثر میرے تعاقب میں آئی ہیں ان آنکھوں کی گردش کرتی کرگسی پتلیاں
آنکھیں جو یوں اپنی پلکوں پر میرے لفظوں کو تولنے میں میری نبضوں کے بقایوں کو بھی
گن لیتی ہیں
’’تم رہو ڈرتے عقباؤں سے ۔۔۔ ہم سے جو پوچھو تو ہماری ہی سب گوتیں ہیں
جو آخرتوں کے گوشت کدوں میں، زعفرانی ڈوروں والی کافوری خلعتیں اوڑھ کے
مزے مزے سے مٹی چچوڑتی ہیں
تم پڑے یونہی ڈرتے رہو اے لمبی ٹانگوں والے انسانی مکوڑو۔۔۔‘‘
 
فہرست