ان کو جینے کی مہلت۔۔۔

مجید امجد


ان کو جینے کی مہلت دے ، جو تیرے بندوں کی خاطر جیتے ہیں
ورنہ ۔۔۔ تو ۔۔۔ اس نگری کا اک اک نگ کھوٹا ہے
۔۔۔کوئی نہیں جو ناتواں ذروں کا راکھی ہو
کون ان کا راکھی ہے ، صرف ان کی یہی دو آنکھیں، جن کی نگہداری میں زندہ ہیں
یہ ناتواں ذرے
ذرے ، جن میں عزتیں ٹمٹماتی ہیں اس اک گھر کی جس پر محجوب اندیشوں
کی چھت ہے
ان آنکھوں میں جلنے والے مقدس ارمانوں کو روشن رکھ
میں ان آنکھوں کے ارمانوں کے دکھ میں جیتا ہوں
یہ دکھ مجھ کو زندگی سے بھی عزیز ہے
ان کو جینے کی مہلت دے جن کے جیتے رہنے میں اس دکھ، اس غم کی عفت ہے
ان کے دن تھوڑے ہوں تو میری زندگی ان کو دے دے
اس ہونی کے ہونے تک تو۔۔۔ اپنے ہونے تک تو۔۔۔ میں ہوں
اس وقفے کو ایسی راحتوں سے بھر دے ، کچھ ایسی راحتیں
جو میں ان دو نگہدار آنکھوں کو دے سکوں، حیائیں جن کی زندگی ہیں
 
فہرست