صبح ہوئی ہے ۔۔۔

مجید امجد


صبح ہوئی ہے ، صبح جو نیندوں میں جینے والی اک موت سے جاگ اٹھنے کی انگڑائی ہے
سونے والو، تمہاری خاک آلودہ لمبی نیندیں میری اک اک شب کی
نیند کی ہمیشگیاں ہیں
سونے والو، جیسی تمہارے وقتوں میں تھی، اب بھی اسی طرح سے ہے یہ دنیا
صبحیں ۔۔۔ اور ان کے بعد آتی شاموں کے کالے جھونکے جن کے دامن میں
موت ہے نیندوں میں ابدائی ہوئی
اور گلی کی ٹوٹی سلاخوں والی نالی تک آ کر جب اک بوڑھے نے
اپنے کھوکھلے پوپلے سے جبڑے کو عصا کے خم پر رکھ کے جنازہ برداروں سے پوچھا:
’’کون تھا؟‘‘ ۔۔۔ تو گدرایا ہوا اک ماتمی بولا:
’’کوئی مہلت مند تھا، ہم تو کاندھا دینے چل پڑے اس کے ساتھ، کہ وہ سو برس جیا تھا‘‘
اور اک بے آب آنسو کی سسکی جب
بھرے محلے کے دروازوں اور منڈیروں سے گزری تو موت کی لذت سے
سب چہرے تمتما اٹھے
یہ سب اپنے خواب ہیں، سونے والو
خواب ہمارے جن میں تمہاری دنیا جاگتی ہے ، اے سونے والو!
ہر روز ان صبحوں میں، اک اک شب کی موت کے ڈھلنے پر، اک ان دیکھے
طائر کے گیت میں
مرنے والوں کے یہ بول ابھرتے ہیں: ’’جیہو ۔۔۔ جیورے ۔۔۔ جیو جیورے ۔۔۔!‘‘
سونے والو، تمہیں خبر ہے
اپنی ان نیندوں سے جاگ کے جب میں تمہارے دھیان میں جیتا ہوں تو
تمہاری نیندوں میں کفنائے ہوئے ارمان
مرے جینے میں جاگتے ہیں
 
فہرست