کیا قیمت۔۔۔

مجید امجد


کیا قیمت اس مٹی کی جو اب مٹی بھی نہیں ہے
آنسوؤں کے پانی سے نمک کا مالیدہ ہے
لاکھوں رتیں گلابوں کی اس میں کافور ہیں
اس مٹی میں سونے والے نام سدا باقی ہیں دنیا والوں کے حرفوں کے حنوط سے
اس کی اک ڈھیری پر آنکھیں میچ کے ہاتھ اٹھاؤ تو دھیان ایسے ایسے خیالوں
کی جانب جاتے ہیں
جن سے دونوں جہاں زندہ ہیں
لیکن ہائے وہ مٹی جو اب مٹی میں مٹی بھی نہیں ہے
جس پر صدیوں کے گارے کی تہیں ہیں
دیکھو تو یہ مٹی کہاں نہیں ہے ، کہاں کہاں یہ ہاتھ اٹھیں گے
کس کو خبر ان ٹھیکریوں سے ڈھکی ہوئی ڈھلوان کے نیچے
ان آہن ریزوں سے چنی ہوئی بنیاد کے نیچے
کس کس سونے والے کے کچے مسکن کی ڈاٹ ہے جس میں دیے ابد کے ٹمٹماتے ہیں
کہاں کہاں یہ ہاتھ اٹھیں گے
چلتے چلتے ذرا ٹھٹک کر سوچو تو، اک جھونکے میں لپٹ ہے ایسے ایسے
خیالوں کی جن سے یہ دونوں جہاں زندہ ہیں
 
فہرست