اے ری صبح۔۔۔

مجید امجد


اے ری صبح کی اجلی زرق برق گزرگاہوں پر چیختی، اڑتی، بے بس خوشبو
یہ نفرت کی دولت تجھ کو بھی تو خرید سکتی ہے
تو نے یہ تو دیکھا ہوتا، تیرا نظر نہ آنے والا بدن کن کن بدنوں پہ لباس ہے
تجھ سے اور کیا ہو سکتا تھا
اس طرح اب جن پیرہنوں نے تجھ کو جھٹک دیا ہے
تو نے ان کی سجل کریزوں پر یوں ٹوٹ کے گرنا ہی تھا
کیسی ہیں یہ سپردگیاں جن میں سچ کی رمزوں کی پسپائی ہے
تو نے یہ تو دیکھا ہوتا، تو جن شستہ پہناووں پر یوں لہلوٹ ہے
ان سے ڈھکے ہوئے جثوں میں پل پل کیسے تریڑے پڑتے ہیں اس زرد لہو کے
جو کالے رزقوں سے کشید ہوتا ہے
اے اس دنیا کی اچھائیوں کے تت ست میں پنپنے والی روحوں کی روح
کبھی تو تو ان باغوں سے بھی گزرتی
جہاں وہ مہکتے پھول نہیں کھلتے جو دوزخوں کی ٹھنڈک ہیں
 
فہرست