اے دل اب تو۔۔۔

مجید امجد


اے دل، اب تو کچھ ڈر
اپنے یقینوں سے ڈر
اپنے نہ ڈرنے سے ڈر
اب تو تو نے اپنے سپنوں میں خود سن لیے ایسے ایسے بول
ان سنے ۔۔۔ سہانے
چلتی مشین گنوں سے چھدے ہوئے وہ بول، اک ان جانی بولی میں
بول، کہ جو مرنے والوں کی آخری کراہوں میں دم بھر کو جیے تھے
جب چوبی کھمبوں سے
بندھے ہوئے اعضا اس کڑے کساؤ میں آزادی سے تڑپ بھی نہیں سکے تھے
اور کھمبوں سے ڈھلک گئے تھے
گولیوں سے دھنکے ہوئے
ریزہ ریزہ
خوں چکاں!
اور ۔۔۔ وہ ان کے آخری مختصر، بول سہانے
ان جانے وطنوں کے ترانوں کے وہ ٹوٹتے جڑے ماترے
اپنے اختیاروں میں اتنے بے بس اور اپنے اطمینانوں میں اتنے بے کل
وہ سب اتنے مقدس حرف جو خواب میں ان سب تصویروں کے ساتھ ابھرے تھے
خواب میں کتنے اچھے لگے تھے ۔۔۔ اور اب جاگنے میں تجھ کو اپنے آپ پہ حیرت کیوں ہے
اب وہ پنکھڑیاں اس عجلت سے جھٹک بھی دیں تو نے اپنے دامن سے
اے دل، کچھ ڈر
اے دل، کچھ دیکھ
کتنے قیمتی، کتنے نازک ہیں یہ رابطے جن سے نظام ان تیری ٹک ٹک چلتی راحتوں کے
قائم ہیں ۔۔۔
 
فہرست