اور ہمارے وجود۔۔۔

مجید امجد


اور ہمارے وجود، ہمارے خیال، ہماری عاجزیاں… سب اس کے لیے ہیں
جس کو ان کی ضرورت بھی نہیں، اپنی منشاؤں میں۔۔۔ اپنے فیصلوں کے وقت
سدا، زمانوں زمانوں، تہذیبوں تہذیبوں، کیسے کیسے تمرد والے قہقہے
اس کو بھلا دینے میں ابھرے ہیں جو ہمارے نسیانوں میں ہمیشہ سے اک جیتی یاد ہے
اپنے آپ کو دیکھوں تو خود بھی اپنے گمانوں کے بارے میں کیسے خیال رکھتا ہوں
میری حد تک فرق اتنا ہے
مجھ کو بھی اوروں کے جھوٹ نے روند ڈالا ہے
اب میں کس پر جھپٹوں، اس سچائی کے بل پر جو مجھ میں ہے اور جس کو جھٹلانے میں
لگی رہی ہیں میرے لہو کی گردشیں
کچھ ہو۔۔۔ اس کے ہست کا اجرا یا اس کے عندیے کی قطعیت
کچھ ہو ۔۔۔ ہر حالت میں اس کو پسند ہے صرف اک وہ سچائی
جو سب سے پہلے مٹی کے اک پتلے کے دل میں سہمی ہوئی اتری تھی
اک ہی سچا انسان اس کے سامنے رہا ہے ، ہر عالم میں، لاکھوں تیرتی ڈوبتی
تہذیبوں کے درمیان
 
فہرست