یہ دن، یہ تیرے شگفتہ دنوں کا آخری دن

مجید امجد


یہ دن، یہ تیرے شگفتہ دنوں کا آخری دن
کہ جس کے ساتھ ہوئے ختم لاکھ دورِ زماں
چناب چین وہ دنیا، یہ عصر راوی رو
کبھی نہ ٹوٹنے والی رفاقتوں کے جہاں
وہ سب روابطِ دیرینہ یاد آتے ہیں
ترا خلوص، تری دوستی، ترے احساں
مسرتوں میں لہکتے ہرے بھرے ایام
قدم قدم پہ ترا لطفِ خاص ہمدم جاں
اور اب یہ تیرگیاں۔۔۔ اب کہاں تلاش کریں
وہ شخص پیکرِ صدق اور وہ فرد فیض رساں
رہِ عدم کے مسافر، ذرا پلٹ کے تو دیکھ
گرفتہ جاں ہے ترے غم میں بزمِ ہم نفساں
ترے کرم کی بہاروں میں سوگوار ہیں، دیکھ
ترے چمن کے گل و سرو و لالہ و ریحاں
امڈ امڈ کے سدا گزرے گی غموں کی یہ موج
دلوں کی بستیوں سے تا بہ ساحلِ دوراں
ابھی ابھی وہ یہیں تھا۔۔۔ زمانہ سوچے گا
انھی گلوں میں ہیں اس کے تبسموں کے نشاں
ابھی ابھی انھی کنجوں میں اس کے سائے تھے
ابھی ابھی تو وہ تھا ان برآمدوں میں یہاں
کوئی یقین کرے گا، اک ایسی عظمت بھی
کبھی تھی حصۂ دنیا، کبھی تھی جزوِ جہاں
ہمی نے دیکھا ہے اس کو، ہمیں خبر ہے وہ شخص
دلوں کی روشنیاں تھا، دلوں کی زندگیاں
ہمیں خبر ہے ، بڑے حلم و آبرو والے
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں
زمانہ سوچے گا، وہ ایک کون تھا تجھ سا
جو ان دیاروں سے گزرا تھا یوں گہر افشاں
اور اب جو تو نہیں، کچھ بھی نہیں، نہ ہم نہ حیات
ہر ایک سمت اندھیرا، ہر ایک سمت خزاں
جگہ جگہ تری موجودگی کو پاتے ہیں
ہمارے دردِ فراواں، ہمارے اشکِ رواں
ترے لیے جھکے مینائے کوثر و تسنیم
ترے لیے کھلیں درہائے روضۂ رضواں
 
فہرست