سنا ہے میں نے

مجید امجد


سنا ہے میں نے کہ شعری ؎۱ تمھاری سمتِ سفر
بساطِ گل پہ بچھی برف کی سلوں میں ہے
تمھارا قافلۂ شوق جاگزیں اب کے
کنارِ کوہ پہ نیلم کے ساحلوں میں ہے
تمھیں تلاش ہے جس عالمِ مسرت کی
وہ سبز کنجوں نہ گل پوش منزلوں میں ہے
تمھارے بعد مجید امجد اور انجم ؎ ۲ نے
بسا لیا وہ سوات ان کے جو دلوں میں ہے
لذیذ پانی پیا، سیب کھائے ، شعر پڑھے
اک ایسا دن کہاں دنیا کی محفلوں میں ہے
ہماری روح کی سیف الملوک جھیل کے پاس
ہمارا تذکرہ جنت شمائلوں میں ہے
کبھی کبھی جو ہمارے دلوں میں جھانکتا ہے
کہاں وہ لمحہ زمانے کے محملوں میں ہے
(نوٹ: یہ قطعہ ارتجالاً لکھا گیا تھا۔)
؎۱ مجید امجد کے نہایت عزیز دوست جن کا قیام جھنگ میں تھا۔ انتقال ہو چکا ہے ۔
؎۲ پروفیسر تقی انجم، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج جھنگ
 
فہرست