تعارف از کرشن چندر


راشدؔ کی شاعری اردو میں ایک نئے تجرباتی دور کی تمہید ہے۔ اس کا مقابلہ دورِ آخر کی شاعری سے نہیں کیا جا سکتا۔راشدؔ کی شاعری ہیئت اور مادّے دونوں کے اعتبار سے ہماری مروّجہ شاعری سے مختلف ہے۔ تاریخی اعتبار سے شاعروں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم کے شاعر وہ ہیں جو ماضی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تاثرات ،الفاظ اور معانی استعمال کرتے ہیں اور اگر ہوسکے تو ہر ممکن کوشش سے اس حلقے کے اندر رہ کر اظہار کی نئی پہنائیاں اور نئے اسلوبِ بیان تلاش کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے شاعر وہ ہیں جن کی آواز گویا کسی نئے اُفق سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ماضی کے تسلسل کو چیرتی ہوئی ہمارے دلوں میں اُتر جاتی ہے راشد دوسری قسم کا شاعر ہے۔
گو اردو کی بے قافیہ شاعری عبدالحلیم شررؔ اور اسمٰعیل میرٹھی سے شروع ہوئی ہے لیکن اوّل تو اِن بزرگوں نے اس کی طرف نہایت بے دلی سے توجہ کی اور ایک دو غیرمربوط کوششوں کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ دوسرے ان میں تاثیر اور اسلوبِ بیان ، فکر اور لباس کا وہ آہنگ اور امتزاج موجود نہ تھا جو راشدؔ کے ہاں بدرجۂ اُتّم پایا جاتا ہے۔ بے قافیہ شاعری سے صرف یہی مراد نہیں کہ پرانے اصولوں سے انحراف کیا جائے۔ اگر یہ انحراف صرف اسلوب تک ہی محدود ہو تو یہ بہت بڑی جدت نہ ہو گی۔ گو یہ انحراف بھی بذاتِ خود ایک قابل قدر چیز ہے۔ لیکن راشد کے ہاں یہ انحراف داخلی اور خارجی، فنی اور فکری لحاظ سے مکمل ہے اور یہ چیز اُس کی شاعری کی اجتہادی حیثیت کو نمایاں کرتی ہے۔
فنی نقطۂ نگاہ سے راشدؔ ایک صحیح باغی شاعر ہے۔ اس کا تخیّل ہمیشہ ہماری موروثی زبان کے الفاظ، ان کے معانی، اسالیب بیان، بندشوں اور ترکیبوں کو توڑتا، پگھلاتا، انہیں نئے سانچوں میں ڈھالتا، نئی صورتیں دیتا اور ان سے نئے مطالب کشید کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اس کی شاعری میں نفسیاتی تحلیل اور جذباتی تسلسل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اور ان دونوں کے ہم آہنگ ہونے سے ایک آزاد تسلسل کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جدید نفسیات کے ماہروں نے ذہن لاشعور کو ماپنے کے لیے آزاد تسلسل کا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ کسی شخص سے مخاطب ہو کر ایک فہرست میں منتخب الفاظ یا فقرے بولے جاتے ہیں۔ اور اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب اُن الفاظ یا الفاظ کے مجموعے سے دے جو سب سے پہلے اس کے ذہن میں آئیں۔ ان جوابات سے اس فرد کی زیرنفسی کیفیت کے متعلق نتائج مرتب کیے جاتے ہیں۔ شعر کی بھی ایک حد تک یہی کیفیت ہے۔ شاعر کے دِل میں ایک خیال اٹھتا ہے۔ پھر اس کا ذہن لاشعور اس خیال سے وابستہ دوسرے خیالوں اور تصویروں کو کھینچ لاتا ہے اور انہیں شعر کی صورت میں منتقل کر دیتا ہے۔ اس طرح سے شاعر جہاں اپنے ذہن لاشعور کے مفروضات کو قبول کر لیتا ہے۔ وہیں وہ اپنی شعری تخلیق کے عمل سے بھی کسی حد تک آگاہ رہتا ہے۔ یہ واقفیت اس کے قلبی واردات کا صحیح جائزہ ہو یا غلط، شاعر کے لیے ہمیشہ ایک بڑے بھاری ذہنی اضطراب کا باعث ہوتی ہے۔ اس اضطراب پر قابو پانے کے لیے شاعر مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے پرانے شاعر، ولیؔ سے اقبالؔ تک، اس مقصد کے لیے اپنی ذات کو اپنے ذہن لاشعور پر محیط کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس طاقت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے، ہر ٹکڑے کو الگ الگ منطقی دلائل کے ساتھ باندھ دیا کرتے تھے۔ دوسرا طریقہ جو ہماری جدید شاعری میں آہستہ آہستہ نمایاں ہو رہا ہے، یہ ہے کہ شاعر اپنے نفسی تجزیہ اور جذباتی تسلسل کے بہاؤ میں ہم آہنگی پیدا کر کے ذہن لاشعور میں سے آزاد تسلسل کو وجود میں لاتا ہے۔
اوّل الذکر طریق کار کی سب سے مکمل مثال علامہ اقبال کی شاعری ہے۔ راشد کا اسلوب عمل مؤخر الذکر طریقے یعنی آزاد تسلسل کے مطابق ہے بعض اعلیٰ درجے کے فلموں میں ایسے لمحاتی مناظر جن کا بظاہر آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، ناظر کے سامنے پے در پے لائے جاتے ہیں لیکن ان مناظر کے مجموعی اثر سے ایک واضح تصویر اور ایک مکمل تاثر ناظر کے دل و دماغ پر کھنچ جاتا ہے۔ آزاد تسلسل کی یہ ایک مرئی صورت ہے۔ ’’اجنبی عورت‘‘ میں ارضِ مشرق کی زبوں حالی اور ’’انتقام‘‘ میں ایک فرنگی شبستان کا تاثر پیدا کرنے کے لیے راشد نے اسی نوع کی فنکاری سے کام لیا ہے۔ آزاد تسلسل راشد کا خاص انداز ہے۔ اس کی مثال اس کی اکثر نظموں میں ملتی ہیں۔ اس سے اس کی نظموں میں ایک خاص ایجاز اور جامعیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو عہدِحاضر کے بہت کم شاعروں کو نصیب ہے۔ اکثر اوقات اس کے ذہن لاشعور کی کھنچی ہوئی تصویریں صرف عامیوں ہی کی نہیں بلکہ عہدِحاضر کے اکثر شعرا کی ذہنی تصویروں سے مختلف ہوتی ہیں اور اس لیے وہ انہیں سمجھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ یہ تصویریں اتنی برق رفتاری سے ذہن لاشعور سے کھنچتی چلی آتی ہیں کہ ان میں فوری طور پر کسی تسلسل کا اندازہ نہیں ہو سکتا اس لیے راشد کی اکثر نظمیں مبہم سمجھی جاتی ہیں اور یہ صرف راشد ہی پر کیا منحصر ہے۔ مشرق اور مغرب کی جدید شاعری بہت حد تک مبہم اور ناقابل فہم ہے۔ اس کے ذمہ دار عہدجدید کے شاعر نہیں بلکہ ہمارا تیزی سے بدلتا ہوا معاشرتی ماحول ہے۔ اشتہارات، تضریحات، اخبارات اور جدید افسانوی ادب کا سیلاب ، ہمہ گیر لیکن بے آہنگ نظام تعلیم اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ اعصابی مہیجات انسان کے تخیّل اور قوّت ِ برداشت سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہر فردِ واحد کے تخیّل اور ادراک کی ایک جہد ہوتی ہے لیکن جدید تہذیب اور حکمت، تخیّل کے دائرے کے حدود کو بے حد تیزرفتاری سے وسیع کرتی جارہی ہیں۔ کسی تہذیب کی ترقی کا اندازہ انفرادی تخیّل اور شعور کے بڑھتے ہوئے دائرے ہی سے لگایا جا سکتا ہے لیکن اب دائرہ اتنی سرعت سے پھیل رہا ہے کہ فرد اور معاشرت میں توازن برقرار رکھنا دشوار ہورہا ہے۔ فرد چاروں طرف سے کھنچا جارہا ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ یہ کشاکش اس دائرے کے مرکز یعنی روح اور اس کے محیط یعنی تخیّل کے رشتۂ اتحاد ہی کو منقطع نہ کردے۔
ان حالات میں شاعر کے لیے صرف دو راستے باقی ہوتے ہیں۔ یا تو وہ ان مہیجات کا حریف بن جائے یعنی انہی کے مانند ہنگامی اور اعصابی شاعری پیدا کرنے لگے جس کا دل و دماغ پر وہی اثر ہو جو عہدِحاضر کی تضریحات اور اخبارات پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے اکثر شاعر اسی قسم کی شاعری کررہے ہیں۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ شاعر معاشرتی ماحول کو ٹھکرا دے اور اپنے گرد ایک فکری خول سا بُن لے اور اس میں پناہ گزیں ہوجائے۔ پہلی صورت میں شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیغام اور فکری اور تخلیقی قوتوں کو خیرباد کہہ دے۔ دوسری صورت میں وہ عوام کے لیے کسی حد تک مبہم اور ناقابل فہم ہوکر رہ جائے گا۔ دونوں باتیں شاعر کے لیے خطرناک ہیں۔ لیکن راشد نے دوسرے خطرے کو پہلے خطرے پر ترجیح دی ہے۔ ایک حد تک آئرلینڈ کے شاعر Yeats کی طرح راشد کا محاورہ بھی ذاتی اور نفسیاتی ہے۔ اس کا جذباتی تسلسل ہم آہنگ اور آزاد ہے اور وہ منطقی ماحول جو وہ اپنی نظموں میں پیدا کرتا ہے۔ اکثر پڑھنے والوں کے لیے مبہم ہے۔ شاعری کو عام طور پر فکری زاویۂ نگاہ سے پرکھنے عادت ہم لوگوں میں کم ہے اور راشد کے جوہر کا سب سے بڑا جزو اس کی فکری شاعری ہے۔
راشد نے پرانی راہ کو یکسر چھوڑ دیا ہے۔ گویا روایتِ شعری کو ایک طرح سے خیرباد کہہ دیا ہے۔ روایتی شاعر کو ایک فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے کہ اسے بہت سے کُلیّے تیار اور مستعمل مل جاتے ہیں۔ اسے یہ ہوتا ہے کہ شاعری میں عام لوگوں کا ذاتی تجربہ اور تخیّل کس حد تک وسیع ہے۔ اور وہ اس سے باہر جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ داخلی طور پر شاعری وہ کرتا ہے وہ دماغی اعصاب پر ریڈیو اور سینما جیسے تفریحات ہی کا اثر پیدا کرتی ہے۔ راشد نے داخلی اور خارجی دونوں لحاظ سے صدیوں کے فرسودہ راستے کو چھوڑ دیا ہے۔ روایت کو بھی اور اس ہنگامی اور اعصابی شاعری کو بھی، جو اب غالباً تلذذ پیدا کرنے کے سوا کسی کام کی نہیں ۔ اس وجہ سے راشد کی شاعری سے کیف و سرور کا کماحقہ اکتساب کرنے کے لیے اس کے ذہنی تسلسل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
خارجی طور پر ایک مربوط۔ ہم آہنگ سماجی گروہ کا شاعری پر وہی اثر ہوتا ہے۔ جو داخلی طور پر شعری روایات کا شاعری کی تاریخ سے ظاہر ہے۔ کہ اس صنف نے اُنہی زمانوں میں اور انہی مقامات پر اپنی معراج حاصل کی۔ جہاں ادنیٰ مگر مضبوط اور جامع سماجی گروہ موجود تھے۔ جیسے کہ یونان کی شہری ریاستیں، کالی داس کا ہندوستان۔ اور الزبتھ کا انگلستان لیکن جہاں کسی ملک کی حالت ابتر ہو۔ قوم مختلف حصوں میں منقسم ہو۔ جہاں اخلاق کا تنزل انتہائی صورت اختیار کر چکا ہو۔ یا جہاں اخلاق کے پرانے اصول اپنی ہیئت بدل رہے ہوں۔ الغرض جہاں انسانی تخیّل کا دائرہ واضح اور متعین نہ ہو۔ وہاں سچی شاعری کا مواد مشکل سے دستیاب ہوتا ہے۔ اور اس سے سچے شاعر کا کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ شاعر ان حالات میں بظاہر اس لیے مبہم ہو جاتا ہے۔ کہ وہ اِس انتشار میں اپنے آپ کو مدغم نہیں کر دینا چاہتا۔ اس مرگِ انبوہ کو جشن نہیں بنانا چاہتا۔ اس کی فکری افتادِ طبع اسے ایک منفرد اکائی بننے پر مجبور کرتی ہے۔ چنانچہ اس کی آواز سمجھنے کے لیے محض جبلت ہی درکار نہیں ۔ بلکہ ایک فکری کوشش اور اُس کے ذہنی تسلسل کو سمجھنے کا ادراک بھی ضروری ہے۔ دوسری طرف شاعر بھی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اس فکری رو کو عوام تک پہنچا دے۔ راشد اور اس کے رفقا جو پہلے ایک مرکز سے وابستہ تھے۔ اب آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تاکہ ان میں اور زندگی میں ایک مضبوط رشتے کی بنیاد پڑ سکے۔
راشد کی شاعری جنگ عظیم کے بعد کی شاعری ہے۔ بظاہر یہ زمانہ انقلاب کا ہے۔ اس دور میں ایشیا کے اکثر حصوں میں صنعتی، معاشرتی اور سیاسی بیداری پیدا ہوئی ہے۔ انتخابات، جمہوریت اور عوام کی رائے دہندگی کے ہنگامے ہیں۔ قدیم فرسودہ گندے معاشری نظام کو تباہ کر دینے کی آرزوؤں اور ارادوں کے چرچے ہیں۔ وطنیت کی ایک لہر ہے۔ جو ایشیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ہندوستان میں بھی جہاں ان نئے ارمانوں کے سایوں میں ملک کے شاندار مستقبل کے خاکے کھینچے جا رہے ہیں۔ وہاں ایک نئے ادب کی بھی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ چنانچہ شاعری میں بھی خودی، آزادی اور مزدور کی عظمت کے چرچے ہیں۔ ایک سطحی، جذباتی قسم کی وطن پرستی اور ایک موہوم نئے دور کی آمد میں رجائی نغمے گائے جا رہے ہیں۔ لیکن راشد کی نگاہیں کچھ اور ہی دیکھ رہی ہیں۔ راشد کو یہ سب ولولے، یہ سب دعوے ہنگامی اور وقتی معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے خیال میں ارضِ مشرق کی روح اگر مر نہیں چکی۔ تو قریبِ مرگ ضرور ہے۔ مشرقی نظامِ زندگی فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس کا مذہب اس کا تمدن اب اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ راشد کی شاعری میں اس اعصابی تکان، ذہنی جمود، شکستہ ایمان اور حد سے بڑھے ہوئے احساس کمتری کا پتہ ملتا ہے۔ جو صدیوں سے ارض مشرق پر طاری ہے۔ راشد سمجھتا ہے کہ اب اس بیمار کو اچھا ہونے کی کوئی امید نہیں ۔ اسے اب مر ہی جانا چاہئے۔ مرنے کی یہ خواہش جو مشرقی روح کو مٹتی ہوئی زندگی کا عکس لطیف ہے۔ راشد کی شاعری میں بار بار آتی ہے۔ راشد کو مشرق کی موت ناگزیر نظر آتی ہے۔ لیکن اسے اس کا سسک سسک کر مرنا بہت ناگوار ہے۔ یہ احساسِ شدید جو مشرق کے تنزلِ حیات سے ہویدا ہے۔ اس کو قوتِ متخیّلہ پر پوری طرح چھا گیا ہے۔ اور بار بار کوندے کی طرح یاسیت کے کہرے میں لپکتا ہے:
’’تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں !‘‘
مشرقی روح کے مٹ جانے کی خواہش کا اظہار دورِ جدید کی شاعری میں راشد کے سوا کسی شاعر کے کلام میں موجود نہیں ۔ کیونکہ ہمارے اکثر شاعر ایک نام نہاد رجائی شاعری کے جال میں گرفتار ہیں۔ یہ خواہش راشد کے جوہر کا جزو لاینفک ہے۔ اور حالات کا صحیح آئینہ دار۔ راشد کو کسی نام نہاد خودی کا زعم نہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ کہ یہ شئےِ لطیف اب مشرق میں نایاب ہوتی جا رہی ہے:
’’ان میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں
ایک دلہن سی بنی بیٹھی ہے۔
ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی خودی کی قندیل
لیکن اتنی بھی توانائی نہیں
بڑھ کے ان میں سے کوئی شعلہ جوالہ بنے!‘‘
۔۔۔دریچے کے قریب
ذاتی خودی تو کم و بیش ہر شخص میں موجود رہتی ہے۔ اس کے بغیر زیست ممکن نہیں ۔ لیکن ’’یہ ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی خودی کی قندیل‘‘ ایسی نہیں کہ شعلۂ جوّالہ بن کر بھڑک اٹھے۔ اور مشرقی روح کے ویرانوں اور ’’سنگین تاریکیوں‘‘ میں اجالا کر دے۔ نئے دور کی آمد کے جو راگ اب گائے جا رہے ہیں ٹھیک اسی طرح گذشتہ جنگ عظیم کے زمانے میں گائے گئے تھے۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا۔ یعنی مشرق بدستور غلام اور نیم مردہ رہا۔ اور اس کی روح کو توانائی حاصل ہوئی نہ صحت۔ انہی باتوں کا جائزہ لے کر کئی بار راشد کا تخیّل جہنمی اور عفریتی بن جاتا ہے۔ خواہشِ مرگ کا اظہار راشد کے کلام میں دو طرح ا جاگر ہوتا ہے۔ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر۔ انفرادی طور پر وہ دیکھتا ہے کہ ’’زندگی ایک زہر بھرا جام ہے‘‘۔ اور ’’ماورا کی پہلی نظم ۔۔۔ کہ ’’میں اسے واقفِ اُلفت نہ کروں‘‘ بظاہر ایک رومانوی تخیّل کی تخلیق معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دوسرا بند پڑھتے ہی ہمیں شاعر کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں خوگرِ آلام نہیں
سحرِ عیش میں اس کا اثرِ شام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں
راشد نے اپنی شاعری کی ابتدا وہاں سے کی ہے۔ جہاں بہت سے شاعر ا پنی شاعری کو ختم کر دیتے ہیں۔ یعنی ’’اثرِ شام‘‘ زندگی۔۔۔اِک زہر سے بھرا ہوا جام’’۔۔۔یہ لہر اس کی انفرادی زندگی میں بار بار آتی ہے‘‘۔ کہ
’’ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا‘‘ ۔۔۔
’’کہ ایک خواب میں بے مدعا رواں ہیں ہم‘‘،
’’غم کا بحر بے کراں ہے یہ جہان‘‘،
’’زندگی پر اندوہ سایہ ریز ہے‘‘،
’’زندگی میرے لیے ایک خونی بھیڑیئے سے کم نہیں ‘‘۔۔۔
افسردگی، بے رونقی، اندوہ ۔۔۔ شاعر اس شدتِ احساس کے بارگراں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وہ اس جہنمی زندگی سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔فرار۔۔۔
’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں ‘‘
اور جب زندگی سے پناہ مانگتے ہوئے بھی اسے اس ماحول اور اس زندگی میں رہنا پڑتا ہے۔ تو اُس کی روح آزاد ہونے کے لیے بیتاب ہو جاتی ہے۔ اور وہ خودکشی کے لیے تیار ہو جاتا ہے ’’خودکشی‘‘ اس، مجموعے میں آخری نظم ہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی طور پر اُس کی فکری یاسیت کی تکمیل۔۔۔انفرادی طور پر ’’خودکشی‘‘ اس کی شخصی زندگی کا منطقی انجام ہے۔ وہ زندگی جسے وہ زہر سے بھرا ہوا جام سمجھتا تھا۔ اور اجتماعی طور پر یہ ’’خودکشی‘‘ ارضِ مشرق کی موت کی خواہش یعنی Death Wish کا اظہار ہے۔
اجتماعی طور پر ’’دریچے کے قریب‘‘ ارضِ مشرق کی موت کی خواہش کا بہترین اظہار ہے۔ میرے خیال میں فکری اور فنی اعتبار سے ’’دریچے کے قریب‘‘ راشد کی بہترین نظم ہے۔ شاعر اپنی محبوبہ کو صبح کے وقت اپنی خوابگاہ کے دریچے سے ایک مشرقی شہر کا نظارہ دکھاتا ہے۔ اور ایک پرانی مسجد کے بند مینار کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے۔
’’اسی مینار کو دیکھ
صبح کے نور سے شاداب سہی
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اپنے بیکار خدا کے مانند
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا مُلّائے حزیں
ایک عفریت۔۔۔اداس
تین سو سال کی ذلت کا نشاں
ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی۔‘‘
’’ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی‘‘۔۔۔ اس بے پناہ گہری طنز کا جواب نہیں !
’’دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم
بے پنہ سیل کے مانند رواں
جیسے جنات بیابانوں میں
مشعلیں لے کے سرِشام نکل آتے ہیں‘‘
---
’’ان میں مفلس بھی ہیں بیمار بھی ہیں‘‘
زیرِ افلاک مگر ظلم سہے جاتے ہیں۔
’’اجنبی عورت‘‘ میں مشرق کا یہ عفریتی اور جہنمی منظر ایک مغربی عورت کی حقیقت بین نگاہوں سے دکھلایا گیا ہے۔ مغربی مرد اور عورتیں مشرق کو ایک رومانوی زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہاتھ، سپیرے، جادوگر، مہاراجے، بندر، چیتے یہ سب چیزیں ان کے ذہن میں مشرق کا ایک جامع نقشہ پیش کر دیتی ہیں۔ لیکن ’’اجنبی عورت‘‘ میں مشرق کی زندگی کا نقشہ ایک ایسی عورت پیش کرتی ہے۔ جس کی آنکھوں سے رومانیت کی پٹی اتر چکی ہے۔ عام مغربی عورتوں کی طرح وہ بھی مشرق میں کسی ’’رومان‘‘ کی تلاش میں وارد ہوتی ہے۔ لیکن یہاں آ کر جب مشرق کی زبوں حالی کو دیکھتی ہے۔ تو اسے یکایک احساس ہوتا ہے۔ کہ زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی اس کے ’’خوابوں کا کوئی رومان نہیں ‘‘ ۔۔۔’’کاش اک دیوارِ ظلم، میرے ان کے درمیان حائل نہ ہو‘‘۔ ’’دیوارِ ظلم‘‘ اور ’’دیوار رنگ‘‘ جو مشرق اور مغرب کے درمیان کھنچی ہوئی ہے۔ کیا یہ اس دیوار کی تمثیل نہیں ۔ جو یاجوج ماجوج اور ہم انسانوں کے درمیان کھڑی ہے۔ شاید یہ اس دیوار کا اجتماعی عکس ہے۔ جو ’’خودکشی‘‘ میں شخصی زندگی اور اس کی راحتوں کے درمیان استادہ ہے۔ اس دیوار کو یاجوج ماجوج کی طرح نوک زبان سے ہزار بار چاٹنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ دیوار شاید قیامت تک بدستور قائم اور استوار رہے گی۔
’’دیوار رنگ‘‘ اور ’’دیوار ظلم‘‘ کے ذکر سے میرے ذہن میں راشد کی شعری تصویریں اجاگر ہونے لگتی ہیں۔ راشد کی تشبیہیں، نفسیاتی مصوری کی حیرت انگیز مثالیں ہیں۔ تشبیہیں اُس کے کلام میں زیادہ نہیں ۔ لیکن جتنی بھی ہیں۔ بلند پایہ اور نادر۔ اکثر تو وہ محض ایک ہی کنائے سے پوری تصویر کھینچ دیتا ہے۔ ’’اجنبی عورت‘‘ میں اس نے مشرقی عورت کی بے بسی، بے چارگی اور مظلومی کا نقشہ صرف ایک لفظ سے کھینچ دیا ہے۔
’’یہ گھروں میں خوبصورت عورتوں کا زہرخند!‘‘
ایک تشبیہ ملاحظہ ہو
آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں
ظلم سہتے ہوئے حبشی، کی طرح رینگتی ہیں
۔۔۔ بے کراں رات کے سناٹے میں
راشد نے آرزوؤں کو ظلم سہتے ہوئے حبشی کے رینگنے سے تشبیہ دی ہے ، یعنی ایک داخلی واردات کے لیے ایک خارجی بلکہ سیاسی کنایہ استعمال کیا ہے۔ اس سے جہاں تشبیہ کی خوبصورتی دوچند ہوگئی ہے۔ وہاں نفسِ مضمون میں وسعت اور گہرائی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ راشد اکثر خارجی حقیقتوں کو بیان کرنے کے لیے داخلی کنایوں سے کام لیتا ہے اور داخلی واردات کو واضح کرنے کے لیے اس کے ڈانڈے کسی ایسے خارجی حادثے سے جا ملاتا ہے کہ ان کنایوں سے پیدا کیے ہوئے خاکوں میں گویا جان سی پڑ جاتی ہے ۔ اور پھر یہ تصویر داخلی اور خارجی اعتبار سے مکمل اور جامع ہوجاتی ہے۔
’’بے کراں رات ۔۔۔میں لذت اور تعیش کی گرانباری کے محسوسات کا نفسیاتی خاکہ کتنی خوبصورت ،مختصر لیکن جامع تشبیہوں سے واضح کیا ہے۔
’’تیرے بستر پہ مری جان کبھی
بے کراں رات کے سناٹے میں
جذبۂ شوق سے ہوجاتے ہیں اعضا مدہوش
اور لذت کی گرانباری سے
ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی
اور کہیں اس کے قریب
نیند۔ آغاز زمستان کے پرندے کی طرح
خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے
اپنے پرتولتی ہے چیختی ہے
بے کراں رات کے سناٹے میں ۔‘‘
لیکن شاید داخلی اور خارجی واردات کی ہم آہنگی بہترین مثال ہمیں ’’دریچے کے قریب ‘‘ میں ملتی ہے:
’’آمری جان مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں
مسجدِ شہر کے میناروں کو
جن کی رفعت سے مجھے
اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے!‘‘
مسجد کے میناروں کی رفعت سے ان تمناؤں کی بلندی کا خیال آتا ہے۔ جو عرصہ گزرا۔ شاعر کے دل میں پیدا ہوئیں ۔ لیکن شاعر کے دل کی گہرائیوں میں بدستور موجود ہیں۔ اس طرح ’’اتفاقات‘‘ میں کہکشاں کو اپنی تمناؤں کے رہگذار سے تشبیہ دی ہے اور چاندنی رات میں پتوں پر چاند کی کرنوں کے پھیلنے کا ذکر ان حسین الفاظ میں کیا ہے:
’’دیکھ پتوں میں لرزتی ہوئی کرنوں کا نفوذ
سرسراتی ہوئی بڑھتی ہے رگوں میں جیسے
اولیں بادہ گساری میں مئے تازہ و ناب‘‘
اور کہیں اس قسم کے حسین مرقعے:
’’تیرے مژگاں کے تلے گہرے خیال
بے بسی کی نیند میں الجھے ہوئے‘‘
۔۔۔ ایک رات
’’اور دشمن کے گرانڈیل جوان
جیسے کہسار پہ دیودار کے پیڑ‘‘
۔۔۔ سپاہی
منفی اعتبار سے راشد کا نقطۂ نگاہ خودکشی یا فرار پر منتج ہوتا ہے۔ خودکشی کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔ یہاں فرار کے متعلق کچھ کہنا ہے۔ راشد نے فرار کے جذبے کو نہایت شدت سے محسوس کیا ہے۔ اور اسے نہایت خوبصورتی سے شعریت میں منتقل کیا ہے۔ ’’اتفاقات‘‘ ، ’’طلسمِ جاوداں‘‘، ‘’’ہونٹوں کا لمس‘‘، ’’شاعرِ در ماندہ‘‘ ، ’’رقص‘‘ ، ’’بے کراں رات کے سناٹے میں ‘‘ اور ’’شرابی‘‘ منفی فرار کی بہترین مثالیں ہیں۔ شاعرانہ خلوص کے اعتبار سے بھی اور شاعرانہ دیانتداری کے لحاظ سے بھی اس نے اپنی بے بسی میں مشرق کی بے بسی پائی ہے۔ اس بے آہنگ نظام حیات کا مطالعہ کیا ہے۔ اور اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ راشد جب تاریخ کے اس تیز بہاؤ کو دیکھتا ہے۔ جب ارض مشرق کی المناک موت کے سانحہ پر غور کرتا ہے ۔ تو اس کی روح غم سے لبریز ہوجاتی ہے، اس کی روح کا اضطراب شدت اختیار کر لیتا ہے۔ وہ فرار کا راستہ تلاش کرتا ہے۔ اس راستہ پر و ہ خودی کی کسی موہوم قندیل سے روشنی طلب نہیں کرتا۔ اسے خوب معلوم ہے کہ یہ قندیل اب کبھی روشن نہیں ہونے کی۔ وہ کسی موہوم اور غیرمتعین دَورِ نو کی جھوٹی خوشی سے بھی اپنے آپ کو دھوکا نہیں دینا چاہتا۔ فطرت پرست شاعروں کے مانند وہ قدرت کے خوبصورت نظاروں کو بھی اپنا ذہنی ملجاو ماویٰ بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ انسانی تخلیق کے اس بے پناہ جذبے کو اپناتا ہے جس کی تکمیل جنسی آسودگی سے ہوتی ہے۔ موت قریب ہے۔ وقت کم ہے اور اس مٹتی ہوئی زندگی کا اس سے بہتر مصرف اور کیا ہوسکتا ہے کہ اُسے محبوب کی نرم نرم بانہوں میں گزار دیا جائے:
’’تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس
اور پھر لمس طویل
جس سے ایسی زندگی کے دِن مجھے آتے ہیں یاد
میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں ‘‘
۔۔۔ہونٹوں کا لمس
’’رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت
اب رہنے دے
اپنی آنکھوں کے طلسم جاوداں میں بہنے دے‘‘
وقت کے اس مختصر لمحے کو دیکھ
تو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا
پھیل کر خود بے کراں ہو جائے گا
چند لمحوں کے لیے آزاد ہوں
تیرے دل سے اخذِ نورِ نغمہ کرنے کے لیے
زندگی کی لذتوں سے سینہ بھرنے کے لیے!‘‘
۔۔۔طلسمِ جاوداں
’’اتفاقات کو دیکھ
اس زمستان کی حسیں رات کو دیکھ
۔۔۔۔۔
تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں ‘‘
۔۔۔اتفاقات
’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں ‘‘
۔۔۔رقص
فن، شراب اور عورت!۔۔۔راشد نے فرار کی جو صورت پیدا کی ہے۔ اس سے وہ مطمئن نہیں ۔ وہ اس تاریخی غم کو جو اس کی روح میں خوابیدہ تیرگیوں کی طرح بس گیا ہے۔ بھلانا چاہتا ہے۔ لیکن اُسے معلوم ہے۔ کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہر لحظہ اُسے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ رقص گاہ کے چور دروازے سے کہیں زندگی اندر جھانک کر اُسے دیکھ نہ لے۔ ایک حسین اور اجنبی عورت کے ساتھ رقص کرتے ہوئے بھی وہ یہ جانتا ہے کہ راحت یہاں بھی نہیں ہے۔ جس خوشی کو وہ ڈھونڈنے آیا ہے۔ وہ یہاں بھی نہیں :
’’جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!‘‘
۔۔۔رقص
’’ورنہ اک جام شراب ارغواں
کیا بجھا سکتا تھا میرے سینہ سوزاں کی آگ‘‘
۔۔۔شرابی
یہ فرار کی منفی صورت ہے۔ اس شخصی فرار کے لیے اگر راشد نے جنسی آسودگی کو منتخب کیا ہے۔ تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ کہ ہندوستان جیسے شریف ملک میں جنسی آسودگی کو بہت بری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ فاقہ پرستی خواہ کسی رنگ میں ہو۔ بنظر استحسان دیکھی جاتی ہے بلکہ زیادہ فاقہ کرنے والے کو معاشرت میں ایک ممتاز حیثیت دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ملک میں جہاں فاقہ پرستی قومی شعار بن چکی ہے۔ جنسی فاقہ پرستی کس خطرناک حد تک بڑھی ہو گی بقول راشد:
’’آہ انسان کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی
حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے
ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے۔۔۔‘‘
۔۔۔حزنِ انسان
’’مکافات‘‘ میں راشد نے ہندوستانی نوجوانوں کو جنسی بھوک کا تجزیہ جس انداز میں کیا ہے اس کی نظیر بہت کم ملے گی:
’’زبانِ شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
کِیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب اُنہیں
خیال ہی میں کِیا پرورش گناہوں کو
کبھی کِیا نہ جوانی سے بہرہ یاب اُنہیں !‘‘
اب اس ضبط کی سزا بھی بھگتئے:
’’یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو
کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا‘‘
اور۔۔۔
’’پیام مرگ جوانی تھا اجتناب مرا‘‘
یہ ضبط اور یہ اجتناب جو ہمارے بزرگوں کی روحانیت کے طفیل ہماری گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ لاکھوں جوانوں کے شباب کو زہرآلود کر چکا ہے۔ اس اجتناب نفس کے ردِّعمل کی مہیب مگر سچی داستاں ایک داخلی واردات کی صورت میں راشد کی زبان سے سنئے:
’’لو آ گئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں
وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے‘‘
’’اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟‘‘
راشد کے ہاں منفیت کا رنگ غالب ہے۔ اور یہ منفیت عکس ہے۔ اس نظام زندگی کا جو شاعر نے موجودہ دور سے ورثہ میں پائی ہے۔ جہاں تک یہ منفیت گرد و پیش کے حالات کی آئینہ دار ہے۔ ہم اسے جھٹلا نہیں سکتے۔ نہ اس کی تضحیک کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر شاعر کی نگاہ صرف منفیت تک محدود ہے۔ تو یہ ایک خطرناک قسم کی یاسیت ہو گی۔ اور ایک رجعتی میلان کی حامل۔ لیکن راشد کے ہاں اس منفیت کے بین السطور تعمیرِ نو کا خیال بھی اسی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ بلکہ ایک طرح سے یہ اس منفیت اور فرار کا ردِّعمل ہے۔ شاعر ایک ایسی کائنات کا طالب ہے۔ جس میں اہرمن اور یزداں کے جھگڑے ہمیشہ کے لیے چکا دیئے جائیں۔ جہاں مشرق اور مغرب کے درمیان امتیاز اُٹھ جائے۔ جہاں زندگی کے تختِ خواب کے نیچے ’’بوئے مے میں بوئے خون الجھی ہوئی‘‘ نہ ہو ’’جس کی رفعت دیکھ کر خود ہمت یزداں ہے چور‘‘۔
’’جس جگہ اہرمینوں کا بھی نہیں کچھ اختیار‘‘ ، ’’مشرق و مغرب کے پار‘‘۔۔۔
’’مشرق و مغرب کے پار
زندگی اور موت کی فرسودہ شہ راہوں سے دور
جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور
جس جگہ ہر صبح کو ملتا ہے ایمائے ظہور
اور بُنے جاتے ہیں راتوں کے لیے خوابوں کے جال‘‘
بظاہر فلسفۂ حیات محض تصور پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن راشد آسمان کی نیلاہٹوں ہی میں پرواز کرنا نہیں چاہتا۔ وہ اس آسمانی نور کو زمین پر بکھیرنا چاہتا ہے۔ راشد اور اس کے رفقا کا مرکزی خیال محبت ہی ہے۔ جہاں سے سچی شاعری کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ محبت جو انسان اور انسان کے درمیان ایک ابدی رشتے کی طرح قائم کی جا سکتی ہے۔ اور جس کے بغیر زندگی کی بہیمیت اور شقاوت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ راشد کا اپنا رجحان نہ انفرادیت کی طرف ہے نہ اجتماعیت کی طرف۔ انفرادیت کی خوفناک تنہائیاں شاعر کو پسند نہیں ۔ اوراجتماعیت جو فرد ہی کو بلندی کے انتہائی نقطے پر پہنچانے کی ایک کوشش کا نام ہے۔ اس میں اُسے بے شمار رخنے اور پیچ نظر آتے ہیں۔ پھر وہ کونسا نظامِ زندگی ہے۔ جس میں یہ زہر موجود نہ ہو۔ زندگی کے اِس دوراہے پر پہنچ کر اس نے بشریت کے دامن میں پناہ لی ہے۔ یہ فلسفۂ حیات نیا نہیں ۔ لیکن اس کی بنیادی سچائی، اور کشش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ راشد کی شاعری کا منبع یہی ایک نقطہ۔ یہی ایک مرکز ہے۔ وہی مرکز قدیم یعنی انسانی محبت۔ وہ انسان اور انسان کے درمیان محبت چاہتا ہے اور ان تمام چیزوں کو فنا کر دینے کا حامی ہے۔ جو اس کی راہ میں حائل ہیں۔ یزدان بھی اور اہرمن بھی۔ ہم میں سے اکثر اسے ناقابل عمل سمجھیں گے۔ جیسا کہ موجودہ دور کی زندگی نے نمایاں کر دیا ہے لیکن راشد اسی میں انسان کی نجات دیکھتا ہے:
’’ایک سودا ہی سہی آرزوئے خام سہی
ایک بار اور محبت کر لوں
ایک انسان سے الفت کر لوں‘‘
۔۔۔جرأت پرواز
’’مرا جی چاہتا ہے ایک دن اس خوابِ سِیمِیں کو
حِجابِ فنّ و رقْص و نَغْمہ سے آزاد کر ڈالوں
ابھی تک یہ گریزاں ہے مُحبّت کی نگاہوں سے
اسے اک پیکرِ انسان میں آباد کر ڈالوں!‘‘
۔۔۔خواب آوارہ
کرشن چندر
دہلی:
18مارچ 1941ء
فہرست