’’آخرالامر آہو زاغ را گفت:
’’اے برادر اگرچہ سخنِ مادر غائتِ فصاحت است و اشعار کہ می خوانیم در نہایت بلاغت، اماسنگ پشت را سود ندارد۔۔۔‘‘
میں اپنی منظومات کا پہلا مجموعہ اشاعت کے لیے واگزار کرتے ہوئے شعر کی تکنیک پر اپنے چند خیالات کے اظہار کی معذرت چاہتا ہوں۔ اس نگارش سے اپنی خامیوں کا جواز یا توجیہہ پیش کرنا مقصود نہیں ۔ البتہ ان حضرات کا جو اس طرزِ سخن کو اپنے لیے اجنبی اور غیرمانوس پاتے ہیں۔ ذہنی قرب حاصل کرنے کی تمنا ضرور ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ نہ صرف ایک قوم کے ذہنی رجحانات دوسری قوم کے ذہنی رجحانات سے مختلف ہوتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی قوم مختلف زمانوں میں مختلف قسم کے ادبی مظاہرات پیش کرتی ہے چنانچہ ایک عہد میں جو اسلوبِ بیان یا اصناف سخن یا نظامِ فکر پسند کیا جاتا رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ کسی اور زمانے میں بھی یکساں قبولیت حاصل کر سکے۔ وقت کے مد و جزر سے قوموں کے حساسات جمالی تصورات اور معیار اخلاق میں خود بخود فرق پڑتا رہتا ہے۔ یہ تغیر قوموں کے ادبی ذوق پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ جس طرح ان کی روزانہ معاشرت پر۔ ان حالات میں بعض اوقات قوم اپنے ادیبوں سے مختلف قسم کی نگارشات کی توقع کرنے لگتی ہے۔ اور قوم کے اس خاموش مطالبے کے جواب میں ادبی تغیرات واقع ہونے لگتے ہیں۔ لیکن جب کوئی قوم اپنی ذہنی پسماندگی کی وجہ سے یہ مطالبہ پیش کرنے کی جرأت اور بے باکی نہیں رکھتی۔ تو کوئی جوہر قابل از خود نمودار ہو کر اس جمود کو توڑ دیتا ہے۔
لیکن ان تغیرات ہی کا نتیجہ ہے۔ جو وقتاً فوقتاً ازخود یا کسی جوہرِ قابل کی تحریک سے عمل میں آتے ہیں۔ کہ کسی قوم میں ادبیات کی باقاعدہ نشوونما رکنے نہیں پاتی۔ چنانچہ جو ادب نئے نئے تجربات سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ بالآخر اس قدر فرسودہ اور جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔ کہ ادب کا یہ بنیادی مقصد کہ وہ قوم کی ذہنی اور تادیبی حیثیت میں برتری پیدا کرے۔ اس قوم میں پروان ہیں چڑھتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ایشیائی ممالک میں ادبی تغیرات بھی معاشرتی تبدیلیوں کی طرح شاذ و نادر ہی واقع ہوتے ہیں۔ اس کے غالباً دو بڑے سبب ہیں۔ ایک تو ہماری آب و ہوا اور ہمارے جغرافیائی حالات جنہوں نے نہ صرف ہمارے جسموں میں بلکہ ہمارے ذہنوں میں بھی ایک لازوال کسالت پیدا کر رکھی ہے۔ یعنی ہمارے ذہنوں میں وہ مافوق الفطرت تحرک باقی نہیں چھوڑا۔ جو زندگی کی پیش کی ہوئی نئی مہمات سر کرنے کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ ہمارے ادب میں گذشتہ کئی صدیوں سے کوئی بڑا انقلاب رونما نہیں ہوا۔ اور نہ شاید رونما ہونے کی امید ہے۔ جو تھوڑے بہت تغیرات واقع ہوئے ہیں۔ وہ بھی قوم کی طبعی کوششوں یا خود رو فکر کی صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں ۔ بلکہ بارہا یوں ہوا ہے کہ باہر سے کسی قاہر و جابر حملہ آور نے دفعتاً اور ایک محدود عرصہ کے لیے ہمارے سیاسی اور معاشرتی نظام کو تہ و بالا کر دیا۔ تو ہمارے ادبا اور شعرا نے بھی زیادہ سے زیادہ اتنا کیا۔ کہ اپنی بے بسی اور مجبوری کے اظہار میں اور شدت پیدا کر دی۔ اور اگر زندگی کچھ عرصہ کے لیے سکون اور اطمینان کی شاہراہوں پر چلتی رہی۔ تو پھر لوٹ کر راحت طلبی کے آغوش میں سو گئے۔
دوسرا سبب ہمارا مذہب ہے۔ جس نے ہمیں کافی بالذات ہونا سکھایا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ اس سے ہماری انفرادیت کی نشوونما بہت حد تک رُک گئی ہے۔ کیونکہ ہر مذہبی خاندان کا بچہ اپنے جسم اور روح پر ایک ایسی مہر لے کر پیدا ہوتا ہے۔ جو عمر بھر اسے ایک مخصوص گروہ سے وابستہ اور ہم آہنگ کیے رکھتی ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے تصورات پر خارجی اثرات قبول کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ اور جہاں کسی خارجی اثر کا نشان پاتے ہیں۔ محتاط ہو کر مدافعت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اِس سے مذہب کی تخفیف مقصود نہیں ۔ لیکن یہ کہے بغیر بھی چارہ نہیں کہ ہمارے مذہب نے ہماری انفرادیت کو غیر ضروری حد تک صدمہ پہنچایا ہے۔ اور خود فکری کے اس نایاب جوہر کو جو ادبیات اور تہذیب کے فروغ اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ آہستہ آہستہ محدود کر دیا ہے۔
ہماری ہر نئی پود اپنے آبا و اجداد کے خیالات اور تاثرات کی صدائے بازگشت لے کر آتی ہے اس کے برعکس مغرب کے فلسفے اور نظامِ تمدن پر نظر ڈالیں تو آپ محسوس کریں گے۔ کہ بیسویں صدی کے اشتراکی اور آمری نظریوں کی ترویج سے پیشتر معاشرت اور ادب کے ہر شعبہ میں انفرادیت کی توسیع اور نشوونما کی کوشش نمایاں تھی۔ مغربی ادب نے اپنے لیے کوئی مقررہ نظام خیال یا شاہراہ فکر وضع نہیں کی۔ جس کے بغیر مغرب کے ادباء اور شعراء کو چارہ نہ ہو۔ ان کی خوش قسمتی سے مغرب میں افراد کے فکر و عمل، ادب تصورات، یا ادبی اعمال پر حکومت یا کسی اور خارجی طاقت کا اس قدر غلبہ نہیں رہا۔ کہ وہ ان کی انفرادیت میں رخنہ انداز کر سکتی۔
اردو میں سب سے پہلے جس شخص نے طرز خیال میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی وہ حالیؔ ہے۔ وہی ہمارے ادب میں رسوم و قیود کا سب سے پہلا باغی تھا۔ اس نے ہماری مروجہ شعری تمثیلات اور تصورات دونوں میں بہت بڑا اجتہاد کیا۔ لیکن غزل کے ساتھ اس کی عرصہ دراز تک وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اُسے غزل کے مسلمہ عقائد سے اختلاف ہو تو ہو لیکن یہ احساس بہت کم تھا۔ کہ غزل اپنی تمام وسعت اور پہنائی کے باوجود اس صلاحیت کو کھو چکی ہے جو کسی خود فکر شاعر کے جذبات کے لیے اُسے موزوں صیغۂ اظہار کے طور پر باقی رکھ سکے۔ دراصل حالیؔ کی بغاوت کا رُخ شعوری طور پر قدیم اصناف سخن، تمثیلات اور خیالات کی طرف نہ تھا۔ بلکہ ان غیراخلاقی احساسات کی جانب تھا۔ جو غزل کے ذریعے اظہار کی راہیں پاتے تھے۔و ہ اس عشقیہ شاعری کے خلاف جدوجہد میں مشغول تھا۔ جو اس کے زغم میں اس کے گروہ کے لیے اخلاقی طور پر ’’سودمند‘‘ نہ تھی۔ حالیؔ کے پاس اخلاقی قدروں کے سوا ادب کو جانچنے کا کوئی اور معیار نہ تھا۔ قدیم تمثیلات اور اصناف سخن اور اندازبیان سے اس کی بغاوت محض ضمناً تھی۔ اگر حالیؔ نے ان قدیم تمثیلات تصورات اور اندازِ بیان کو اولاً تباہ کرنے کی کوشش کی ہوتی۔ جنہوں نے ہماری شاعری اور ادب کو آج بھی یخ بستہ کر رکھا ہے۔ تو اُس نے بہت بڑا کام کیا ہوتا۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کہ غزل ایک ایسا صیغۂ اظہار ہے۔ جس پر ہم مشرقی بجا طور پر نازاں ہو سکتے ہیں۔ اس میں ایسی جامعیت کے ساتھ خیالات قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ کہ مغرب کے کسی صیغہ اظہار میں نہیں ۔ مزید برآں اس کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے۔ کہ آج تک ہماری بلند ترین شاعری اس کے سوا کسی اور صنف سخن میں پیدا ہو ہی نہیں سکی۔ پھر اس میں پائندگی اور عالمگیری کے فوق العادت عناصر موجود ہیں۔ لیکن یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے۔ کہ سالہا سال سے واحد اور کثیرالاستعمال صیغۂ اظہار ہونے کے باعث غزل اپنی اکثر صلاحیتوں کو گم نہیں کر چکی۔ مخصوص تمثیلات اور تشبیہات اس کا اس قدر ناگزیر جزو بن چکے ہیں کہ نہ صرف عشقیہ تفکر میں کسی قسم کی ندرت پیدا کرنے والے کو غزل راستہ نہیں دے سکتی۔ بلکہ اس میں غیر عشقیہ خیالات کا اظہار کرنے والے شاعر کو بھی بسا اوقات مسلمہ اور ’’سکہ بند‘‘ تمثیلات کا غلام بننا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی عالمگیری کی قدرتی خصوصیت کے باعث فارسی اور اردو میں ادنیٰ اور سہل انگار شاعروں کی وہ افراط پیدا کر دی ہے۔ کہ ہمارا ادب مجموعی حیثیت سے نہایت رکیک ہو کر رہ گیا ہے۔ پھر غزل ہی کا اثر ہے کہ ہمارے شاعر سالہا سال سے اسی ایک دائرے کے گرد چکر کاٹتے چلے آرہے ہیں۔ جو ان کے کسی خوش نصیب مورث اعلیٰ نے صرف اپنے لیے وضع کیا تھا۔
معلوم نہیں کہ حالیؔ خود اپنے ادبی نصب العین اور لائحہ عمل کو پورے طور پر سمجھ سکا تھا، یا نہیں ۔ البتہ ہماری شاعری میں اس نے ایک تحریک ضرور پیدا کر دی۔ اسے تحریک ہی کہا جا سکتا ہے۔ ہیجان نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس میں شک نہیں ۔ کہ حالیؔ کی انتہائی نیک نیتی کے باوجود ہماری شاعری اپنی قدیم پستیوں سے زیادہ اونچی نہ اُٹھ سکی۔ میری رائے میں اس پستی کا خاتمہ اس طرح ہو سکتا تھا۔ کہ شاعری کو صرف اخلاقی اور معاشرتی خیالات ہی کا ذریعۂ اظہار نہ سمجھا جاتا۔ بلکہ صیغۂ اظہار کی حیثیت سے اس میں وہ لچک اور وہ صلاحیت پیدا کی جاتی۔ کہ اس میں بھی عشقیہ خیالات فرسودہ تمثیلات سے بے نیاز ہو کر نمودار ہو سکتے میرے نزدیک اُس وقت اور آج بھی یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہماری شاعری کی فنی طور پر جامد ہو جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس میں اخلاقیت یا نام نہاد ’’حقیقت نگاری‘‘ پیدا کر کے نہیں ۔
لامحالہ ادبیات میں نئے اصناف سخن کا رائج کرنا بنفسہٖ کوئی بڑا شاندار کارنامہ نہیں ۔ اور کبھی کسی ادیب کو یہ امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ کہ اس کو صرف اس وجہ سے ادبیات میں کوئی پائندہ حیثیت نصیب ہو گی۔ کہ اس نے نئے اصنافِ سخن کی تلاش کی۔ یا ان کی ترویج میں کسی جدت کا مظاہرہ کیا۔ قافیوں کو قدما کے اصول کے خلاف ترتیب دینا مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی کرنا یا بندوں کی ترکیب میں کسی اصول شکنی سے کام لینا ایک سطحی حرکت ہے۔ کیونکہ قابل فخر بات تو صرف یہ ہے۔ کہ اولاً خیالات اور افکار میں اجتہاد ہو۔ پھر یہ نئے خیالات اور افکار اسلوبِ بیان کے ساتھ اس قدر مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں۔ کہ اس ہم آہنگی سے ادیب کی انفرادیت آشکارا ہو سکے۔ اصناف سخن یا ہیئت شعری میں جدت ادبیات کے دریائے بے کراں کی ادنیٰ معاون ہو سکتی ہے لیکن دریا کو اس کے بغیر بھی بہنا آتا ہے!
گزشہ چند سالوں میں ہمارے نقادوں نے اس بات پر بے حد کدو کاوش کی ہے۔ کہ آیا قوافی اور بحور شاعر کی آزاد نگاری میں سدِراہ ہوتے ہیں۔ یا نہیں ۔ ایک گروہ اس بات کا حامی ہے کہ ان قیود سے ادیب کی قوتِ اظہار قطعی طور پر شل ہو جاتی ہے۔ دوسرا وہ انہی قیود کو شاعری کی روحِ رواں سمجھتا ہے۔ ایک گروہ بھی ہے جس کا سلوک کس قدر متحملانہ ہے۔ اور جو اس آزاد روی کو لاعلاج سمجھ کر گوارا کر رہا ہے۔
میری رائے میں جہاں تکنیک کی قیود کی متعصبانہ حمایت ایک فرسودہ قدامت پرستی کی دلیل ہے۔ وہاں اس کے خلاف مجنونانہ احتجاج بہت بڑی حد تک بے راہ روی کے مترادف ہے۔
قوافی اور بحور کی مروجہ تکنیک روایت پر مبنی ہے۔ یہ روایت نسلاً بعد نسلِ ہم تک پہنچی ہے۔ اس لیے اس تکنیک کی فرسودگی کا جانتے ہوئے بھی ہم میں سے اکثر موجودہ صورتحال پر صابر و شاکر رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم تقدیر پرست ایشیائی عام طور پر زندگی کے کسی شعبہ میں بھی نیاقدم اٹھاتے ہوئے خوف اور بزدلی محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ مروجہ بحور و قوافی کا نظام اکثر لوگوں کو اس لیے مرغوب ہے کہ ان کے بزرگوں نے اس کی تکنیک کو متفقہ طور پر قبول کر لیا تھا۔ یہ استدلال ان کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح جو لوگ شدید اور فوری انقلابات کے علمبردار ہیں۔ وہ ندرت پرستی کے جوش میں نہ صرف قوافی و بحور کی تعمیری حیثیت کو فراموش کر دیتے ہیں۔ بلکہ ان کو منسوخ کر کے ان کے نقصان کی تلافی کسی بہتر یا نئی چیز سے کرنا بھی نہیں جانتے۔
ہر زبان کی شاعری کے بحور و قوافی کی روایتی تکنیک میں فرق اور انفرادیت کیوں ہے؟ اس کا غالباً یہ سبب ہے۔ کہ شاعری، ترنم اور تناسب سب اصوات کے لیے ملک کی روایتی موسیقی ہی سے فیضان حاصل کرتی ہے۔ اور ہر ملک کا نظام موسیقی دوسرے ملک کے نظامِ موسیقی سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ ملک کی تہذیبی روایات کے عظیم الشان سلسلے سے اس کی وابستگی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی شاعری خصوصاً اردو شاعری اپنی خارجی اصل کے سبب ہمارے قومی شعور نغمہ کے ساتھ کوئی ربط و آہنگ نہیں رکھتی۔ بلکہ ایک میکانکی علم عروض پر مبنی ہے۔ جو ہم تک عرب سے ایران کے راستے پہنچا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں جو لاتعداد گیت اردو میں لکھے گئے ہیں۔ وہ قومی شعور نغمہ کے ساتھ اردو شاعری کا ربط پیدا کرنے کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہیں۔ اور یہ شعوری کوشش اس نام نہاد وطنیت پرستی کا نتیجہ جس نے پچھلے چند سالوں سے ہمارے ملک میں جنم لیا ہے۔ لیکن غزل نے ہندوستانی روایات نغمہ سے بے بہرہ ہونے کے باوجود ہمارے دلوں میں شعریت کا ایک سیلاب بھر دیا تھا۔ جو آج تک ایک انفرادی روایت کی حیثیت سے موجود ہے۔ اور جس نے ہمارے ملک کی روایت نغمہ پر بھی عالمگیر اثر ڈالا ہے۔ یہ جدید شاعری جو آپ کو ان صفحات میں ملے گی۔ بے شک ہندوستانی روایت نغمہ سے اسی قدر بے نیاز ہے۔ جس قدر آج تک غزلیہ شاعری رہی ہے۔ لیکن اِسے اُن روایات فکر کا قرب ضرور حاصل ہے۔ جو ہمارے ملک میں باقی دنیا کی ثقافت کے اثرات نے پیدا کی ہیں۔ گیتوں میں ملک کی حسِ موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی خوبی ضرور ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ان میں بلند خیالات پیدا کرنے یا زندگی کے اسرار کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت نہیں ۔ جدید غیرملکی تصورات کو چاہے ہم پسند کریں یا نہ کریں۔ مگر آج ان کی گرفت ہمارے خیالات اور عزائم پر ضرور ہے۔ اور اس سے ہمیں قطعاً مضر نہیں ۔ کیونکہ تہذیب اور ثقافت جغرافیائی حدود سے نکل کر اب عالمگیر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان جدید تصورات نے ہمیں ایک نئی بیداری نئی توانائی اور نئی متحرک زندگی بخشی ہے جو ہمارے ادب پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی۔
قدم اسالیب بیان کا ادنیٰ باغی ہونے کے باوجود میرے نزدیک یہ اعتراض قابل پذیرائی نہیں کہ بحروں اور قافیوں کی پابندی شاعر کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ بحور اور قوافی تو اس تناسب اصوات کے محض معاون ہیں۔ جو کسی اعلیٰ شاعر کی روح میں قدرتاً موجود ہوتا ہے۔ جس شاعر کے اندر جذبات کا وفود خیالات کی بلندی اور احساسات کی شدت ہے۔ وہ خود ایسی زبان، ایسا اسلوب بیان اور ایسے اصناف سخن پیدا کرے گا۔ جو اس کے لیے موزوں ہوں بحور و قوافی کی پابندی لامحالہ اُس قدرتی ترنم کے مدوجزر میں اعتدال پیدا کرتی ہے۔ جو شاعر کے اندر موجود ہوتا ہے۔ لیکن کسی اچھے شاعر کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا اس کے بس کی بات نہیں چنانچہ قوافی اور بحور کی سب سے بڑی اہمیت یہی ہے کہ یہ شعر کے ترنم کو قائم رکھتے اور اظہارِ خیال کی بے راہ روی کو روکتے ہیں۔ شاعر کے لیے ترنم ایک حد تک ناگزیر ہے۔ کیونکہ نظم اور نثر میں سب سے پہلا فرق ہی یہ ہے۔ کہ اُس میں اصوات کی ہم آہنگی ہوتی ہے اور اِس میں اِس کا فقدان لیکن اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ کہ بحور و قوافی اصوات کی ہم آہنگی میں مدد دیتے ہوئے شاعر کی قوّتِ اظہار کو ختم نہ کر دیں۔
قافیہ شاعر کے ذہنی ترنم اور حس توازن کا خالق نہیں ۔ اس کا مددگار ضرور ہے۔ قافیہ شاعر کے خیالات جذبات اور قوّتِ بیان کی تاثیر میں شدت پیدا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر قافیے متشابہ اصوات کی بجائے متشابہ حروف پر مبنی ہوتے ہیں۔ تاہم یہ قاری کی جمالی لذت میں اضافہ کا باعث ضرور ہوتے ہیں اور تمام برائیوں کے باوجود قافیے کے لیے یہ وجہِ جواز بے حد اہم ہے۔ اس کے علاوہ نظم کی ترکیب اور تعمیر اور مصرعوں کے باہمی ربط و اتحاد میں قافیہ سے بے نظیر مدد ملتی ہے اور اس کے ذریعہ عروضیوں ہی کو نہیں بلکہ خود شاعروں کو بھی اصناف سخن میں تمیز کرنے اور ان کے تعین میں آسانی ہو جاتی ہے کبھی قافیہ ہی شاعر کو دوسرے ہم رنگ یا متعلقہ الفاظ بلکہ مضمون تک سمجھا دیتا ہے اور اشعار میں ایک دلکش تنوع پیدا کرنے کے لیے بھی یہ بڑا کام دیتا ہے۔ چنانچہ قافیہ کی اہمیت محض اس لیے نہیں کہ یہ شاعری میں موسیقی کی کلید ہے۔ بلکہ اس لیے بھی ہے کہ شعر کے مضمون کی روش اور شاعر کے طریقۂ اظہار پر اس کا گہرا اثر ہے۔
اردو زبان کے سرمایہ میں عربی، فارسی اور ہندی کے لامحدود متوازی اور متشابہ الفاظ ہیں۔ لیکن ایک انداز کی نظم کے لیے سب قوافی بکار آمد نہیں ہوتے۔ شاعر کو اپنی حسِّ انتخاب سے کام لے کر چند قوافی ہی کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ اور یہ چیز قافیہ کے میدان کو نسبتاً محدود کر دیتی ہے۔ اردو میں قافیہ کے صحیح ادراک کی مثال مولانا ظفر علی خاں کی شاعری کے سوا غالباً کہیں نہیں ملتی۔ ان کے فن کا انتہائی کمال یہ ہے۔ کہ بکار آمد قافیوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں صرف کر دیا جائے قافیہ ان کی اکثر نظموں میں مضمون کا رہبر ہے۔ لیکن ان کی چند نظموں سے قطع نظر ان کی شاعری میں قافیے کے صوتی حسن کے احساس کا پتہ نہیں ملتا۔ قافیہ کے صوتی حسن کا شعور نظیر اکبر آبادی، میر انیس اور حفیظ جالندھری کے کلام میں جس شدت سے ہے۔ وہ اردو کے دوسرے شاعروں کے ہاں نہیں ۔ حفیظ جالندھری نے تو الفاظ کے صوتی حسن کے شعور سے اردو شاعری کی جمالی حیثیت کو بیحد بلند کر دیا ہے۔
چنانچہ قوافی قاری کے ذہن میں ترنم کا احساس اور اشعار کے باہمی اتحاد کا فریب ہی پیدا نہیں کرتے بلکہ درحقیقت یہ نظم کی پشت کے مہرے بھی ہیں۔ جن کی مدد سے نظم ایک مربوط اور منظم ڈھانچے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اور نظم میں ایک ناقابلِ شکست استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔ فنی حسن کی معراج قافیے کے بغیر بھی غالباً حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن نظم میں استحکام اور بالیدگی پیدا کرنے کے لیے بسا اوقات اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔
اس ساری بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قافیہ شعر کا ضروری جز نہیں بلکہ اتفاقی اور ضمنی عنصر ہے۔ جس شاعر کو قدرت نے آہنگ اور توازن کی حس عطا کی ہے۔ اسے قافیہ کے سامنے دریوزہ گری کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں ۔ قافیہ اندھے کی لاٹھی کی مانند ہے۔ شاعر اندھا ہے تو اُسے یقینا لاٹھی سے راستہ ٹٹولنے کے سوا چارہ نہیں ۔ لیکن اگر شاعر کو قدرت نے آنکھیں بخشی ہیں۔ تو لاٹھی اس کی حفاظت تو کر سکتی ہے۔ مگر راستہ نہیں دکھا سکتی۔ قافیہ میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ ادنیٰ شاعروں کے ہاتھوں میں نظم کے اندر ترنم اور مصرعوں کا باہمی ربط و اتحاد پیدا کرنے کے لیے سب سے زیادہ سہل الحصول ذریعہ بن جاتا ہے۔ حالانکہ بسا اوقات یہ ترنم اور یہ مصرعوں کا ربط و اتحاد سطحی اور نظم کے دوسرے عیوب کا محض پردہ پوش ہوتا ہے۔ کوئی ادنی شاعر ’’سکہ بند‘‘ قافیوں کی بخشی ہوئی سہولت سے استفادہ کرنے کی ترغیب کو نہیں روک سکتا حالانکہ یہی ترغیب اکثر اس کی تباہی کے لیے راہیں صاف کرتی ہے۔
یہی حال نظم میں ارکان کا ہے۔ ارکان کے توازن سے بھی خاص قسم کا ترنم اور نظم کے مختلف مصرعوں میں یگانگت وجود میں آتی ہے۔ جو قاری کی لذت اندوزی میں اضافہ کرتی ہے۔ لیکن یہ لذت تو ایک ذہین قاری محض شعر کے مضمون اور خیال سے بھی اخذ کر سکتا ہے۔ ارکان کا توازن البتہ اس لذت کو اور تقویت دیتا ہے۔ چنانچہ اوزان شاعری کے تار و پود ضروری ہیں۔ لیکن شاعری کی تاثیر اور جمالی حیثیت کا انحصار ان پر ہرگز نہیں ۔ قدیم اصناف سخن کی اہمیت کا احساس رکھتے ہوئے بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ادب میں حرکت پیدا کرنے کے لیے نئے ذرائع اظہار تلاش کرنا ضروری ہے۔ قدیم اوصناع سخن نے شاعروں کو فرداً فرداً اپنے راستے کے تعین میں مدد دی ہو تو ہو۔ لیکن مجموعی حیثیت سے انہوں نے ہماری شاعری کو محصور اور مجبور کر دیا ہے۔ گویا ہماری روایتی پابندیوں نے ہماری شاعری کو افقی ترقی میں تو مدد دی ہے۔ لیکن اس کی مساوی ترقی کو ایک حد تک ناممکن کر دیا ہے۔ ان پابندیوں نے آج تک ہمارے شاعر کو ان خیالات اور افکار کے اظہار پر مجبور کیے رکھا ہے۔ جو محض گزشتہ نسلوں کی صدائے بازگشت ہیں۔ وہ اپنے ذرائع اظہار کی قدرتی مجبوریوں کی وجہ سے قدیم رسمی خیالات اور تمثیلات سے آزاد ہونا اپنے لیے ممکن نہیں پاتا۔ اور عام اور عادی شاہراہوں پر گامزن ہونے پر مجبور ہے۔ اس مجبوری کا پیدا کیا ہوا تصنع نہ صرف اکثر شاعروں کی فنی ندرت کی کوششوں کے راستے میں بہت بڑا سنگِ گراں ہے بلکہ ہمارے ادبیات کے لیے مجموعی حیثیت سے بھی مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ چنانچہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے اکثر اوضاع سخن اب بھی جدید خیالات کے سیلاب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ادبیات میں ہر جدید تحریک کم فہم اور جلد باز نقالوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور صرف وہی لوگ ادبیات کے احیاء کا باعث ہوتے ہیں۔ جو آزادیٔ فکر سے بہرہ ور اور اپنی مساعی کے محاسن اور مصائب سے آگاہ ہوتے ہیں۔
اردو میں یہ آزاد شاعری کی تحریک محض ذہنی شعبدہ بازی نہیں ۔ محض جدت اور قدیم راہوں سے انحراف کی کوشش نہیں ۔ اگر ان نظموں میں آپ کو کسی تخلیقی جوہر کی معمولی سی چمک، کسی قوّت کا ادنیٰ سا شائبہ، کسی نئے احساس کی ہلکی سی جنبش نہ ملے۔ تو انہیں قطعی طور پر رد کر دیجئے۔ کیونکہ اجتہاد کا جواز صرف یہ نہیں کہ اس سے کس حد تک قدیم اصولوں کی تخریب عمل میں آئی۔ بلکہ یہ کہ آیا تعمیری ادب اس میں سے کسی نئی صبح کی طرح نمودار ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر یہ نہ ہو تو اجتہاد بیکار ہے۔ اجتہاد کا جواز صرف وہ خیالات و افکار ہی پیش کرتے ہیں۔ جن کی خاطر نیا راستہ اختیار کیا گیا ہو۔
اس مجموعے میں چند ابتدائی باقاعدہ نظمیں اور سائنٹ بھی شامل ہیں۔ لیکن اکثر نظمیں وہی ہیں جن میں ہیئت اور فکر کے لحاظ سے قدیم راہوں سے انحراف کیا گیا ہے۔ اس مجموعے کی نظمیں میرے گذشتہ دس سال کے کلام کا انتخاب ہیں اور اسے تاریخی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اکثر احباب کو اپنی بعض پسندیدہ نظمیں اس مجموعے میں موجود نہ پا کر یقینا مایوسی ہو گی۔ لیکن انتخاب کرتے ہوئے کسی قدر سختی سے کام لیے بغیر چارہ نہ تھا۔
میں اس موقعہ پر اپنے چند بزرگوں مثلاً مرحوم وحید کیلانی، ڈاکٹر تاثیر اور حضرت اختر شیرانی اور عزیز دوست آغا حمید کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اگر ان اصحاب کی رہنمائی میرے شریک حال نہ ہوتی تو شاید اس مجموعے کی اشاعت کامدت تک کوئی امکان نہ تھا۔
بھائی غلام عباس بھی شکریے کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے مسودے کی نظرثانی کر کے بیش بہا مشورے دیئے۔ اور محترمی عبدالرحمن چغتائی کا میں خاص طور پر ممنون ہوں کہ ان کی جادو نگاری نے اس کتاب کے لیے اس قدر خوبصورت سرورق مہیا کر دیا۔ شاید اسی نقش سے یہ کتاب زندۂ جاوید ہو جائے۔