مکافات
رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری
رہا ہے زہد سے یارانہ اُستوار مرا
گزر گئی ہے تقَدّس میں زندگی میری
دل اہْرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا
کسی پہ روح نمایاں نہ ہو سکی میری
رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا
دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انھیں
زبانِ شوق بنایا نہیں نگاہوں کو
کِیا نہیں کبھی وحْشَت میں بے نقاب انھیں
خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کو
کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ یاب انھیں
یہ مل رہی ہے مرے ضبْط کی سزا مجھ کو
کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا
اذیّتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری
مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا
الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی
فِشارِ ضبْط سے بے تاب ہے رَباب مرا
مگر یہ ضبْط مرے قہقہوں کا دشمن تھا
پیامِ مرگِ جوانی تھا اجتناب مرا
لو آ گئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں
وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے
لو آ گئے ہیں وہی پیروانِ اہریمن
کیا تھا جن کو سیاست سے سَرْنِگوں میں نے
کبھی نہ جان پہ دیکھا تھا یہ عذابِ الیم
کبھی نہیں اے مرے بختِ واژگوں مَیں نے
مگر یہ جتنی اذیّت بھی دیں مجھے کم ہے
کیا ہے روح کو اپنی بہت زبُوں مَیں نے
اسے نہ ہونے دیا مَیں نے ہم نوائے شباب
نہ اس پہ چلنے دیا شوق کا فسُوں مَیں نے
اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں مَیں نے؟