فطرت اور عہدِ نَو کا انسان
۔۔فطرت۔۔
شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں
آ مرے ننھے، مری جاں، آ مرے شہکار آ!
تجھ پہ صدقے خلد کے نغمات اور انوار آ
آ مرے ننھے! کہ پریاں رات کی آنے کو ہیں
ساری دنیا پر فسوں کا جال پھیلانے کو ہیں
تیری خاطر لا رہی ہیں لوریوں کے ہار آ
دل ترا کب تک نہ ہو گا ’’کھیل‘‘ سے بیزار آ
جب ’’کھلونے‘‘ بھی ترے نیندوں میں کھو جانے کو ہیں؟
کھیل میں کانٹوں سے ہے دامان صد پارا ترا
کاش تُو جانے کہ سامانِ طرَب ارزاں نہیں
کون سی شے ہے جو وجہِ کاہِشِ انساں نہیں
کس لیے رہتا ہے دل شیدائے نظّارا ترا؟
آ کہ ہے راحت بھری آغوش وا تیرے لیے؟
آ کہ میری جان ہے غم آشنا تیرے لیے؟
۔۔۔انسان۔۔۔
جانتا ہوں مادرِ فطرت! کہ میں آوارہ ہوں
طفلِ آوارہ ہوں لیکن سرکش و ناداں نہیں
میری اس آوارگی میں وحشتِ عصیاں نہیں
شوخ ہوں لیکن ابھی معصوم اور بے چارہ ہوں
تجھ کو کیا غم ہے اگر وارفتۂ نظارہ ہوں؟
شکر ہے زندانیِ اہریمن و یزداں نہیں
ان سے بڑھ کر کچھ بھی وجہِ کاہشِ انساں نہیں
میں مگر اُن کے اُفَق سے دُور ایک سیارہ ہوں!
شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں
تُو بلاتی ہے مجھے راحت بھری آغوش میں
کھیل لوں تھوڑا سا آتا ہوں، ابھی آتا ہوں میں
اب تو ’’دن‘‘ کی آخری کرنیں بھی سو جانے کو ہیں
اور کھو جانے کو ہیں وہ بھی کنارِ دوش میں
بہہ چلی ہے روح نیندوں میں مری آتا ہوں میں!