بادل

ن م راشد


چھائے ہوئے ہیں چار طرف پارہ ہائے ابر
آغوش میں لیے ہوئے دنیائے آب و رنگ
میرے لیے ہے اُن کی گرج میں سرودِ چنگ
پیغامِ انبساط ہے مجھ کو صدائے ابْر
اٹھّی ہے ہلکے ہلکے سروں میں نوائے ابْر
اور قطر ہائے آب بجاتے ہیں جل ترنگ
گہرائیوں میں روح کی جاگی ہے ہر اُمنگ
دل میں اُتر رہے ہیں مرے نغمہ ہائے ابْر
مدت سے لٹ چکے تھے تَمنّا کے بار و برگ
چھایا ہوا تھا روح پہ گویا سُکوتِ مرگ
چھوڑا ہے آج زیست کو خوابِ جمود نے
ان بادلوں سے تازہ ہوئی ہے حیات پھر
میرے لیے جوان ہے یہ کائنات پھر
شاداب کر دیا ہے دل اُن کے سرود نے!
 
فہرست