خوابِ آوارہ

ن م راشد


مجھے ذوقِ تماشا لے گیا تصویر خانوں میں
دکھائے حُسن کاروں کے نقوشِ آتشیں مجھ کو
اور ان نقشوں کے محرابی خطوں میں اور رنگوں میں
نظر آیا ہمیشہ ایک رؤیائے حسِیں مجھ کو
سُرُود و رقْص کی خاطر گیا ہوں رقْص گاہوں میں
تو اہلِ رقْص کے ہونٹوں پہ آوارہ تبسّم میں
شباب و شعر سے لبریز اعضا کے ترنم میں
تھرکتے بازوؤں میں، شوق سے لرزاں نگاہوں میں
ہمیشہ جھانکتا پایا وہی خوابِ حسِیں مَیں نے
گزارے ہیں بہت دن حافظ و خیّام سے مل کر
بہت دن آسکر وائیلڈ کی مدہوش دنیا میں
گزاری ہیں کئی راتیں تیاتر میں، سنیما میں
اسی خوابِ فسُوں انگیز کی شیریں تَمنّا میں
بہت آوارہ رکھتا ہے یہ خوابِ سیم گوں مجھ کو
لیے پھرتا ہے ہر انبوہ میں اس کا جُنوں مجھ کو
مگر یہ خواب کیوں رہتا ہے افسانوں کی دنیا میں
حقیقت سے بہت دور، اور رومانوں کی دنیا میں
چھپا رہتا ہے رقْص و نغمہ کے سنگیں حِجابوں میں
ملا رہتا ہے نقّاشوں کے بے تعبیر خوابوں میں؟
مرا جی چاہتا ہے ایک دن اس خوابِ سیمیں کو
حِجابِ فنّ و رقْص و نغمہ سے آزاد کر ڈالوں
ابھی تک یہ گریزاں ہے مُحبّت کی نگاہوں سے
اسے اک پیکرِ انسان میں آباد کر ڈالوں!
 
فہرست