رفعت

ن م راشد


کوئی دیتا ہے بہت دور سے آواز مجھے
چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں
نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں
دے اجازت جو تری چشمِ فسُوں ساز مجھے
اور ہو جائے مُحبّت پَرِ پرواز مجھے
اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں
سُرْعتِ نُور سے یا آنکھ کے ’’پلکارے‘‘ میں
کہ فلک بھی تو نظر آتا ہے درباز مجھے!
سالہا سال مجھے ڈھونڈیں گے دنیا کے مکیں
دوربینیں بھی نِشاں تک نہ مرا پائیں گی
اور نہ پیکر ہی مرا آئے گا پھر سوئے زمیں
عالمِ قدس سے آوازیں مری آئیں گی
بحرِ خمیازہ کشِ وقت کی امواجِ حسِیں
اک سفینہ مرے نغموں سے بھرا لائیں گی!
 
فہرست