اِتّفاقات


آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی،
جسْم ہے خواب سے لذّت کشِ خمیازہ ترا
تیرے مژگاں کے تلے نیند کی شبنم کا نزُول
جس سے دُھل جانے کو ہے غازہ ترا
زندگی تیرے لیے رس بھرے خوابوں کا ہجوم
زندگی میرے لیے کاوشِ بیداری ہے؛
اِتّفاقات کو دیکھ
اس حسِیں رات کو دیکھ
توڑ دے وہْم کے جال
چھوڑ دے اپنے شَبِسْتانوں کو جانے کا خیال،
خوفِ موہُوم تری رُوح پہ کیا طاری ہے!
اتنا بے صرفہ نہیں تیرا جمال
اس جُنوں خیز حسِیں رات کو دیکھ!
آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی
تِشنگی رُوح کی آسودہ نہ ہو
جب ترا جسْم جوانی میں ہے نیسانِ بہار
رنگ و نگہت کا فِشار!
پھول ہیں، گھاس ہے، اشجار ہیں، دیواریں ہیں
اور کچھ سائے کہ ہیں مختصر و تِیرہ و تار،
تجھ کو کیا اس سے غرَض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں؟
دیکھ پتوں میں لرزتی ہوئی کرنوں کا نفوذ
سرسراتی ہوئی بڑھتی ہے رگوں میں جیسے
اوّلیں بادہ گساری میں نئی تند شراب
تجھ کو کیا اس سے غرَض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں
کہکشاں اپنی تَمنّاؤں کا ہے راہ گزار
کاش اس راہ پہ مل کر کبھی پرواز کریں،
اک نئی زیست کا در باز کریں!
آسماں دُور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک
آ اِسی خاک کو ہم جلوہ گہِ راز کریں!
روحیں مل سکتی نہیں ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں،
آ اِسی لذّتِ جاوِید کا آغاز کریں!
صبح جب باغ میں رس لینے کو زنبور آئے
اس کے بوسوں سے ہوں مدہوش سَمَن اور گلاب
شبنمی گھاس پہ دو پیکرِ یخ بستہ ملیں،
اور خدا ہے تو پشیماں ہو جائے!
فہرست