حُزنِ انسان


جسْم اور رُوح میں آہنْگ نہیں،
لذّت اندوز دلآویزیِ موہُوم ہے تو
خستۂ کشمکشِ فکر و عمل!
تجھ کو ہے حسرتِ اظہارِ شباب
اور اظہار سے معذور بھی ہے
جسْم نیکی کے خیالات سے مفرور بھی ہے
اس قدر سادہ و معصوم ہے تو
پھر بھی نیکی ہی کیے جاتی ہے
کہ دل و جسْم کے آہنْگ سے محروم ہے تُو
جسْم ہے رُوح کی عظمت کے لیے زینۂ نُور
منبعِ کیف و سرور!
نارسا آج بھی ہے شوقِ پرستارِ جمال
اور انساں ہے کہ ہے جادہ کشِ راہِ طویل
(رُوحِ یوناں پہ سلام!)
اِک زَمِستاں کی حسِیں رات کا ہنگامِ تپاک
اُس کی لذّات سے آگاہ ہے کون؟
عِشْق ہے تیرے لیے نغمۂ خام
کہ دل و جسْم کے آہنْگ سے محروم ہے تُو!
جسْم اور رُوح کے آہنْگ سے محروم ہے تُو!
ورنہ شب ہائے زَمِستاں ابھی بے کار نہیں
اور نہ بے سود ہیں ایامِ بہار!
آہ انساں کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی
حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے
ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے!
ٹوٹ جائیں گے کسی روز مزامیر کے تار
مسکرا دے کہ ہے تابندہ ابھی تیرا شباب
ہے یہی حضرتِ یزداں کے تمَسْخر کا جواب!
فہرست