تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
۔۔۔موت کا لمحۂ مایوس نہیں،
مصلحِ قوم نہیں ہوں کہ میں آہستہ چلوں
اور ڈروں قوم کہیں جاگ نہ جائے۔۔۔
مَیں تو اک عام سپاہی ہوں، مجھے
حکم ہے دوڑ کے منزل کے قدم لینے کا
اور اسی سعیِ جگر دوز میں جاں دینے کا
تُو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟
تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
راہ میں اونچے پہاڑ آئیں گے
بے کراں، تیز و کف آلود و عظیم
جیسے کہسار پہ دیودار کے پیڑ
عزّت و عفّت و عصمت کے غنیم
ہر طرف خون کے سیلابِ رواں۔۔۔
اِک سپاہی کے لیے خون کے نظّاروں میں
جسْم اور رُوح کی بالیدگی ہے
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
دم بدم بڑھتے چلے جا تے ہیں
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟
عمر گزری ہے غلامی میں مری
اس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!
زمزمے اپنی مُحبّت کے نہ چھیڑ
اس سے اے جان پر وبال میں آتا ہے جمود
میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست
دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول
میرے محبوب وطن کو یہ نگل جائیں گے؟
جنگِ آزادی میں کام آنے بھی دے
تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟