زوال ن م راشد آہ پائندہ نہیں، درد و لذّت کا یہ ہنگامِ جلیل! پھر کئی بار ابھی آئیں گے لمحاتِ جُنوں اس سے شدّت میں فزُوں، اس سے طویل پھر بھی پائندہ نہیں! آپ ہی آپ کسی روز ٹھہر جائے گا تیرے جذبات کا دریائے رواں تجھے معلوم نہیں، کس طرح وقت کی امواج ہیں سرگرمِ خرام؟ تیرے سینے کا دَرخْشَندہ جمال کر دیا جائے گا بیگانۂ نُور نِکہَت و رنگ سے محروم دَوام! تجھے معلوم نہیں؟ اس دریچے میں سے دیکھ خشک، بے برگ، المناک درخْتوں کا سماں کیسا دل دوز سُکوت! زیرِ لب نالہ کشِ جورِ خزاں چودھویں رات کا مہتابِ جواں! ان کے اس پار سے ہے نزد طلوع؛ تجھے معلوم نہیں، ایک دن تیرا جُنوں خیز شباب تیرے اعضا کا جمال کر دیا جائے گا اس طرح سے محرومِ فسُوں؟ اور پھر چاند کے مانند مُحبّت کے خیال سارے اس عہد کے گزرے ہوئے خواب تیرے ماضی کے اُفَق پر سے ہَوَیدا ہوں گے تجھے معلوم نہیں!