آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!۔۔۔
میز کی سطحِ دَرخْشَندہ کو دیکھ
کیسے پیمانوں کا عکسِ سِیمگوں
اس کی بے اندازہ گہرائی میں ہے ڈوبا ہوا
جیسے میری رُوح، میری زندگی
تیری تابندہ سیہ آنکھوں میں ہے
مَے کے پیمانے تو ہٹ سکتے ہیں یہ ہٹتی نہیں!
قہوہ خانے کے شَبِسْتانوں کی خلوت گاہ میں
آج کی شب تیرا دُزدانہ ورود!
عِشْق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب
عنکبوت اور اس کا بے چارہ شکار!
(تیرے ہاتھوں میں مگر لرْزِش ہے کیوں؟
کیوں ترا پیمانہ ہونٹوں سے ترے ہٹتا نہیں!
خام و نَو آموز ہے تُو ساحرہ!
کر رہی ہے اپنے فن کو آشکار
اور اپنے آپ پر تجھ کو یقیں حاصِل نہیں!)
پھر بھی ہے تیرے فسُوں کے سامنے مجھ کو شکست
میرے تخئیلات، میری شاعری بے کار ہیں!
اپنے سر پر قمقموں کے نُور کا سیلاب دیکھ
جس سے تیرے چہرے کا سایہ تیرے سینے پہ ہے
اس طرح اندوہ میری زندگی پر سایہ ریز
تیری آنکھوں کی درخشانی سے ہے
سایہ ہٹ سکتا ہے، غم ہٹتا نہیں!
آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!
دیکھ وہ دیوار پر تصویر دیکھ
یہ اگر چاہے کہ اس کا آفرینندہ کبھی
اس کے ہاتھوں میں ہو مغلوب و اسیر
کیسا بے معنی ہو یہ اس کا خیال،
اس کو پھر اپنی ہزیمت کے سوا چارہ نہ ہو!
میرے ہونٹوں نے تجھے پیدا کیا
آج لیکن میری مدہوشی کو دیکھ
میں کہ تھا خود آفرینندہ ترا
پا بجولاں میرے جسْم و رُوح تیرے سامنے
اور دل پر تیری آنکھوں کی گِرِفتِ نا گزیر،
عکس کیسا بھی ہو فانی ہے مگر
یہ نگاہوں کا فسُوں پائندہ ہے!