گناہ ن م راشد آج پھر آ ہی گیا آج پھر رُوح پہ وہ چھا ہی گیا دی مرے گھر پہ شکست آ کے مجھے! ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا خاک آلودہ و افسردہ و غمگین و نزار پارہ پارہ تھے مری رُوح کے تار آج وہ آ ہی گیا روزنِ در سے لرزتے ہوئے دیکھا مَیں نے خرّم و شاد سرِ راہ اُسے جاتے ہوئے سالہا سال سے مسدود تھا یارانہ مرا اپنے ہی بادہ سے لبریز تھا پیمانہ مرا اس کے لَوٹ آنے کا امکان نہ تھا اس کے ملنے کا بھی ارمان نہ تھا پھر بھی وہ آ ہی گیا کون جانے کہ وہ شیطان نہ تھا بے بسی میرے خداوند کی تھی!