تُو مرے عِشْق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے اَبَدی!
شمع کے سائے سے دیوار پہ محراب سی ہے
سالہا سال سے بدلا نہیں سائے کا مقام
شمع جلتی ہے تو سائے کو بھی حاصِل ہے دَوام
سائے کا عہدِ وفا ہے اَبَدی!
تُو مری شمع ہے، میں سایہ ترا
زندہ جب تک ہوں کہ سینے میں ترے روشنی ہے
کہ مرا عہدِ وفا ہے اَبَدی!
ایک پتنگا سرِ دیوار چلا جاتا ہے
خوف سے سہما ہوا، خطروں سے گھبرایا ہوا
اور سائے کی لکیروں کو سمجھتا ہے کہ ہیں
سرحدِ مرگ و حیات اس کے لیے!
ہاں یہی حال مرے دل کی تَمنّاؤں کا ہے
پھر بھی تُو عِشْق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے اَبَدی!
ہاں مرا عہدِ وفا ہے اَبَدی،
زندگی ان کے لیے ریت نہیں، دھوپ نہیں
ریت پر دُھوپ میں گر لیٹتے ہیں آ کے نہنگ
قعرِ دریا ہی سے وابسْتہ ہے پیمان ان کا
ان کو لے آتا ہے ساحل پہ تنوّع کا خمار
اور پھر ریت میں اک لذّتِ آسودگی ہے!
میں جو سر مسْت نہنگوں کی طرح
اپنے جذبات کی شوریدہ سری سے مجبور
مُضطَرِب رہتا ہوں مدہوشی و عِشْرت کے لیے
اور تری سادہ پرستش کی بجائے
مرتا ہوں تیری ہم آغوشی کی لذّت کے لیے
میرے جذبات کو تُو پھر بھی حقارت سے نہ دیکھ
اور مرے عِشْق سے مایوس نہ ہو
کہ مرا عہدِ وفا ہے اَبَدی!