جاگ اے شمعِ شَبِسْتانِ وصال
محفلِ خواب کے اس فرشِ طرَب ناک سے جاگ!
لذّتِ شب سے ترا جسْم ابھی چور ہی ہے
آ مری جان، مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں
اپنی برسوں کی تَمنّا کا خیال آتا ہے!
سِیمگوں ہاتھوں سے اے جان ذرا
کھول مَے رنگ جُنوں خیز آنکھیں!
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملّائے حزیں
تین سو سال کی ذلّت کا نِشاں
ایسی ذلّت کہ نہیں جس کا مُداوا کوئی!
دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم
بے پنہ سَیل کے مانند رواں!
مشعلیں لے کر سرِ شام نکل آتے ہیں،
ان میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں
ٹمٹماتی ہوئی ننھّی سی خودی کی قندیل
لیکن اتنی بھی توانائی نہیں
بڑھ کے ان میں سے کوئی شعلۂ جوّالہ بنے!
ان میں مفلس بھی ہیں بیمار بھی ہیں
زیرِ افلاک مگر ظلم سہے جاتے ہیں!
ایک بوڑھا سا تھکا ماندہ سا رہوار ہوں میں!
سخت گیر اور تنومند بھی ہے؛
میں بھی اس شہر کے لوگوں کی طرح
بہرِ جمعِ خس و خاشاک نکل جاتا ہوں
شام کو پھر اسی کاشانے میں لوٹ آتا ہوں
بے بسی میری ذرا دیکھ کہ میں
اس دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
جب انھیں عالمِ رُخصت میں شفَق چومتی ہے!