اے مری ہم رقْص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کے آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقْص گہ کہ چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نِشاں پا لے مرا
اور جُرمِ عیش کرتے دیکھ لے!
اے مری ہم رقْص مجھ کو تھام لے
ایک مبہم آسیا کے دَور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا ہوں میں!
رقْص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے بیشتر
کلفتوں کا سنگ ریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے!
اے مری ہم رقْص مجھ کو تھام لے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں؛
اے حسین و اجنبی عورَت اسی کے ڈر سے میں
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تُو مری اُن آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!
اے مری ہم رقْص مجھ کو تھام لے
عہدِ پارینہ کا میں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہے خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسْم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
اے حسین و اجنبی عورَت مجھے اب تھام لے!