انتقام ن م راشد اُس کا چہرہ، اُس کے خدّ و خال یاد آتے نہیں اک شَبِسْتاں یاد ہے اک برہنہ جسْم آتِش داں کے پاس فرْش پر قالین، قالینوں پہ سیج دھات اور پتھر کے بت گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے! اور آتِش داں میں انگاروں کا شور اُن بتوں کی بے حسی پر خشمگیں؛ اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس اُن فرنگی حاکموں کی یادگار جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں سنگِ بنیادِ فرنگ! اُس کا چہرہ اُس کے خدّ و خال یاد آتے نہیں اِک برہنہ جسْم اب تک یاد ہے اجنبی عورَت کا جسْم، میرے ’’ہونٹوں‘‘ نے لیا تھا رات بھر جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام وہ برہنہ جسْم اب تک یاد ہے!