ہے دل پر اپنے زخم کہ سینے پہ حرف ہے

انشاء اللہ خان انشا


یاں زخمی نگاہ کے جینے پہ حرف ہے
ہے دل پر اپنے زخم کہ سینے پہ حرف ہے
زر خرچیاں کہاں تلک اپنی بیاں کریں
قارون کی بھی یاں تو خزینے پہ حرف ہے
ملتے تھے چوتھے پانچویں وہ وقت تو گیا
اب یہ کہ چار پانچ مہینے پہ حرف ہے
کیا دخل وہ جو ہاتھ سے میرے پییں شراب
واں کہتے کہتے بات بھی پینے پہ حرف ہے
طوفان اشک نوحؔ علیہ لسلام سے
بولا کہ آپ کے بھی سفینے پہ حرف ہے
نا چیز آپ جانتے ہیں اس قدر مجھے
الفت تو جاوے بھاڑ میں کینے پہ حرف ہے
ناصح جگر کے زخم کو جراح کیا سئے
یاں سوزن مسیح کے سینے پہ حرف ہے
یاں ہر بن مسام میں خوں نابہ ہے رواں
نکلے تو خوں ہی نکلے پسینے پہ حرف ہے
انشاؔ کی مہر پڑھیے بھلا آشنا ہوا
کندیدہ کوئی اس کے نگینے پہ حرف ہے
اب دھیان کر کے دیکھیے کیا ہے گٹھا ہوا
اس کا ہر ایک اپنے قرینے پہ حرف ہے
فہرست