میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو
ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
ایک ہی روح جو بے حال ہے زندانوں میں
عہدِ رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں
پھر بھی اندیشہ وہ آئینہ ہے جس میں گویا
میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو
محور عشق کی خود مست حقیقت کے سوا
اپنے ہی بیم و رجا اپنی ہی صورت کے سوا
اپنے رنگ اپنے بدن اپنے ہی قامت کے سوا
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا
دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی
ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت
مدعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے
آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا
سائے ہلتے ہوئے ، گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں
میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو
اپنی ہی ذات کی غربال میں چھن جاتے ہیں
دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے
آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے
چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی
ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی
میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو
آج جاں اک نئے ہنگامے میں در آئی ہے