کوئی مجھ کو دور زمان و مکاں سے نکلنے کی صورت بتا دو
کوئی یہ سجھا دو کہ حاصل ہے کیا ہستی رائیگاں سے
کہ غیروں کی تہذیب کی استواری کی خاطر
عبث بن رہا ہے ہمارا لہو مومیائی
میں اس قوم کا فرد ہوں جس کے حصے میں محنت ہی محنت ہے نانِ شبینہ نہیں ہے
اور اس پر بھی یہ قوم دل شاد ہے شوکت باستاں سے
اور اب بھی ہے امید فردا کسی ساحر بے نشاں سے
مری جاں شب و روز کی اس مشقت سے تنگ آ گیا ہوں
میں اس خشت کوبی سے اکتا گیا ہوں
کہاں ہیں وہ دنیا کی تزئین کی آرزوئیں
جنہوں نے تجھے مجھ سے وابستہ تر کر دیا تھا
تری چھاتیوں کی جوئے شیر کیوں زہر کا اک سمندر نہ بن جائے
جسے پی کے سو جائے ننھی سی جاں
جو اک چھپکلی بن کے چمٹی ہوئی ہے تیرے سینۂ مہرباں سے
جو واقف نہیں تیرے دردِ نہاں سے
اسے بھی تو ذلت کی پابندگی کے لیے آلۂ کار بننا پڑے گا
بہت ہے کہ ہم اپنے آبا کی آسودہ کوشی کی پاداش میں
اس آئندہ نسلوں کی زنجیرِ پا کو تو ہم توڑ ڈالیں
مگر اے مری تیرہ راتوں کی ساتھی
یہ شاید کسی نے مسرت کی پہلی کرن دیکھ پائی
نہیں اس دریچے کے باہر تو جھان کو
خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے
جو مغرب کا آقا تھا مشرق کا آقا نہیں تھا
یہ انسان کی برتری کے نئے دور کے شادیانے ہیں سن لو
یہی ہے نئے دور کا پرتو اولیں بھی
اٹھو اور ہم بھی زمانے کی تازہ ولادت کے اس جشن میں
شعاعوں کے طوفان میں بے محابا نہائیں