روسی کتابوں کی دکان پر ہم کھڑے تھے
مجھے روس کے چیدہ صنعت گروں کے
نئے کارناموں کی اک عمر سے تشنگی تھی!
مجھے روسیوں کے سیاسی ''ہمہ اوست'' سے کوئی رغبت نہیں ہے
انساں کے جوہر کی تابندگی دیکھنے کی تمنا ہمیشہ رہی ہے !
اور اس شام تو مرسدہ کی عروسی تھی
اس شوخ دیوانی لڑکی کی خاطر
مجھے ایک نازک سی سوغات کی جستجو تھی
ذرا دور تختے کے پیچھے کھڑی
قفقاز کی رہنے والی حسینہ سے شیر و شکر تھا!
ایک خیمے میں اک دور افتادہ صحرا میں
اس حور قفقاز سے کہہ رہا تھا:
میں کس درجہ دل دادہ ہوں روسیوں کا
مجھے اشتراکی تمدن سے کتنی محبت ہے
یہ ممکن ہے تم مجھ کو روسی سکھا دو؟
کہ روسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کو میں دیکھنا چاہتا ہوں''
کنکھیوں سے یوں دیکھتی تھی
کہ جیسے وہ ان سرنگوں آرزوؤں کو پہچانتی ہو
جو کرتی ہیں اکثر یوں ہی روشناسی
وہ کولھے ہلاتی تھی ہنستی تھی
اک سوچی سمجھی حسابی لگاوٹ سے
جیسے وہ ان خفیہ سرچشمہ گاہوں کے ہر راز کو جانتی ہو
وہ تختے کے پیچھے کھڑی قہقہے مارتی لوٹتی تھی
''کہ اونٹوں کی سوداگری کی لگن ہو
اور اس شہر میں یوں تو استانیاں ان گنت ہیں
مگر اس کی اجرت بھلا تم کہاں دے سکو گے !''
وہ پھر مضطرب ہو کے بے اختیاری سے ہنسنے لگی تھی!
کہ اجرت تو اک شاہی بھر کم نہ ہو گی
مگر فوجیوں کا بھروسا ہی کیا ہے
اک نئے مشتری کی طرف ملتفت ہو گئی تھی!
کہ رومان تو خاک میں مل چکا ہے
اسے کھینچ کر جب میں بازار میں لا رہا تھا
لگاتار کرنے لگا وہ مقولوں میں باتیں
''زباں سیکھنی ہو تو عورت سے سیکھو!
جہاں بھر میں روسی ادب کا نہیں کوئی ثانی
وہ قفقاز کی حور مزدور عورت!
جو دنیا کے مزدور سب ایک ہو جائیں
آغاز ہو اک نیا دورۂ شادمانی
مرے دوستوں میں بہت اشتراکی ہیں
جو ہر محبت میں مایوس ہو کر
یوں ہی اک نئے دورۂ شادمانی کی حسرت میں
کرتے ہیں دل جوئی اک دوسرے کی
زیرِ لب بھی کبھی مسکراتا نہیں ہوں
حسن و مے و رقص و نغمہ کے طوفان بہتے رہے تھے
فرنگی شرابیں تو عنقا تھیں
لیکن مے ناب قزوین و خلار شیراز کے دور پیہم سے
بے ساختہ قہقہوں ہمہموں سے
تہران کی آخری شب یہی ہے !
''تمہارا وہ ساتھی کہاں ہے ؟
ابھی ایک صوفے پہ دیکھا تھا میں نے
تو ہم کچھ پریشان سے ہو گئے
اور کمرہ بہ کمرہ اسے ڈھونڈنے مل کے نکلے !
وہ اشتراکی زمیں پر پڑا تھا
اسے ہم بلایا کیے اور جھنجھوڑا کیے
روسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کی اس کو خبر ہو گئی تھی