جمود

اختر الایمان


تم سے بے رنگی ہستی کا گلہ کرنا تھا
دل پہ انبار ہے خوں گشتہ تمناؤں کا
آج ٹوٹے ہوئے تاروں کا خیال آیا ہے
ایک میلہ ہے پریشان سی امیدوں کا
چند پژمردہ بہاروں کا خیال آیا ہے
پاؤں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مایوسی میں
پر محسن راہ گزاروں کا خیال آیا ہے
ساقی و بادہ نہیں جام و لبِ جو بھی نہیں
تم سے کہنا تھا کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں
 
فہرست