تبدل یاں ہے ہر ساعت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے

بہادر شاہ ظفر


نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
تبدل یاں ہے ہر ساعت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
گریباں چاک ہوں گاہے اڑاتا خاک ہوں گاہے
لیے پھرتی مجھے وحشت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
ابھی ہیں وہ مرے ہم دم ابھی ہو جائیں گے دشمن
نہیں اک وضع پر صحبت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
جو شکل شیشہ گریاں ہوں تو مثلِ جام خنداں ہوں
یہی ہے یاں کی کیفیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
کسی وقت اشک ہیں جاری کسی وقت آہ اور زاری
غرض حال غمِ فرقت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
کوئی دن ہے بہارِ گل پھر آخر ہے خزاں بالکل
چمن ہے منزل عبرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
ظفرؔ اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم
جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست