لہرائے بدریا ماتھوں کی

رئیس فروغؔ


بل کھائے ندیا باتوں کی
لہرائے بدریا ماتھوں کی
اک شعلہ ریشمیں چہرے کا
اک چاندی سانولے ہاتھوں کی
الجھی ہوئی دھیمے لہجے میں
کچھ کرنیں رشتوں ناتوں کی
کلیوں نے ہوا کو سونپی ہیں
تنہائیاں اپنی ذاتوں کی
آنکھوں میں بہت آوارہ ہیں
ٹوٹی ہوئی نیندیں راتوں کی
دیکھو کبھی جاتے موسم کو
پرچھائیں لیے سوغاتوں کی
فہرست