اک پھول مسکرایا رئیس فروغؔ اک پھول مسکرایا بہکی ہواؤں میں دیکھا حسین چہرہ زلفوں کی چھاؤں میں جانے مجھے پھر کیا ہو گیا جانے مجھے پھر کیا ہو گیا یونہی وہ آ گئی تھی یونہی گزر گئی بے رنگ زندگی تھی وہ رنگ بھر گئی جانے مجھے پھر کیا ہو گیا جانے مجھے پھر کیا ہو گیا اک پھول مسکرایا بہکی ہواؤں میں دیکھا حسین چہرہ زلفوں کی چھاؤں میں جانے مجھے پھر کیا ہو گیا جانے مجھے پھر کیا ہو گیا دنیا میں غم نہیں ہے میں سوچنے لگا دنیا بہت حسین ہے میں سوچنے لگا جانے مجھے پھر کیا ہو گیا جانے مجھے پھر کیا ہو گیا