دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے رئیس فروغؔ دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے ماں جو بچھڑ گئی تھی بچوں سے آملی ہے کچے گھروں سے کیسی خوشیاں جھلک رہی ہیں سرسبز کھیتیوں میں فصلیں مہک رہی ہیں گندم کی بالیوں پر کرنیں چمک رہی ہیں تاریک زندگی کو روشن فضا ملی ہے دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے کوئی گھنے سروں میں جب بانسری بجائے رو رو کے حسن سارا گھونگھٹ میں مسکرائے گوری سنبھل رہی ہے کگری چھلک نہ جائے پنگھٹ پہ آسروں کو تازہ ہوا ملی ہے دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے اب اور ہی طرح کے دن اور رات ہوں گے محنت کی وادیوں میں سب ساتھ ساتھ ہوں گے اپنی زمین ہو گی اور اپنے ہاتھ ہوں گے اہلِ وفا کو آخر باد وفا ملی ہے دھرتی سے ہاریوں کو پھر مامتا ملی ہے ماں جو بچھڑ گئی تھی بچوں سے آملی ہے