شیفتہ تیرا ہی تھا جو ثابت و سیارہ تھا

حیدر علی آتش


منتظر تھا وہ تو جست و جو میں یہ آوارہ تھا
شیفتہ تیرا ہی تھا جو ثابت و سیارہ تھا
ہے جو حسرت تو سراپا چشم ہونے کی ہمیں
حاصل اس آئینہ خانہ میں فقط نظارہ تھا
جب شبِ مہ میں چکور اڑتا ہے مر جاتے ہیں ہم
پتلیوں کا اپنی بھی تارہ کوئی رخسارہ تھا
کھول کر دل جب میں روتا تھا فراقِ یار میں
چشمِ تر منبع تھی ہر موئے مژہ فوارہ تھا
سیلِ گریہ نے یہ کس کے دی سمندر کو شکست
جو حباب آیا نظر اک واژگوں نقارا تھا
ایک شب تو وصل جاناں کی تواضع اے فلک
چار دن مہمان تیرے گھر میں میں بے چارہ تھا
روز و شب کے حال کا لکھتا تھا پرچہ روز و شب
کاتب اعمال میری ڈیوڑھی کا ہرکارہ تھا
پیٹنا سر اپنے ماتم میں عزیزو یار کا
قلعۂِ کنجِ لحد کی فتح کا نقارا تھا
عہدِ طفلی سے جنونِ عشق کامل ہے شفیق
شاخ نخل بید مجنوں سے مرا گہوارہ تھا
جانِ شیریں مزد جوئے شیر میں تیشہ کو دی
حوصلہ سے اپنے باہر کوہ کن بے چارا تھا
حالتِ دل کو بیاں کرتا کسی سے میں تو کیا
عشق میں اک مصحفِ رخسار کے سیپارہ تھا
یہ ہوا ظاہر انا لیلی مجنوں سے ہمیں
اپنا دیوانہ تھا اپنے واسطے آوارہ تھا
حال اپنا اے صنم اپنی جدائی میں نہ پوچھ
سینہ و سر تھا ہمارا اور سنگِ خارا تھا
کوچۂِ قاتل میں جب شوقِ شہادت لے گیا
سر نہ تھا گردن پر اپنے بار صد پشتارہ تھا
لوٹتا تھا اس میں بد خوئی سے میں مانند اشک
شوخی طفلان سے جنباں مرا گہوارہ تھا
شان عشق اولیٰ ہے مجنوں دودمان عشق سے
نا خلف نا قابل و نا لائق و ناکارا تھا
اہل عالم سے ہمیشہ آتشؔ ایذائیں ہوئیں
مردم دنیا نمک تھے میں دلِ صد پارہ تھا
فہرست