میں نے رفتہ سے یہ جانا ہے کہ آئندہ نہیں

ضیا جالندھری


اب یہ آنکھیں کسی تسکین سے تابندہ نہیں
میں نے رفتہ سے یہ جانا ہے کہ آئندہ نہیں
تیرے دل میں کوئی غم میرا نمائندہ نہیں
آ گہی تیری مژہ پر ابھی رخشندہ نہیں
دلِ ویراں دم عیسیٰ ہے گئے وقت کی یاد
کون سا لمحۂ رفتہ ہے کہ پھر زندہ نہیں
تو بھی چاہے تو نہ آئے گی وہ بیتی ہوئی رات
ہے وہی چاند مگر ویسا درخشندہ نہیں
ابر آوارہ سے مجھ کو ہے وفا کی امید
برق بے تاب سے شکوہ ہے کہ پائندہ نہیں
کبھی غنچے کو مہکنے سے کوئی روک سکا
شوق اگر ہے تو پھر اظہار سے شرمندہ نہیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست