ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂِ معنی نہ ہوا

مرزا غالب


دہر میں نقشِ وفا وجہتسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂِ معنی نہ ہوا
سبزۂِ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂِ سرمنزل تقویٰ نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلی نہ ہوا
کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا
مر گیا صدمۂِ یک جنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دم عیسٰی نہ ہوا
وسعت رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے
مجھ سا کافرکہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا
فہرست