پر کس کو دل و دماغ ہے یہ

مصحفی غلام ہمدانی


ہر چند بہار و باغ ہے یہ
پر کس کو دل و دماغ ہے یہ
ہے بوند عرق کی زلف کے بیچ
یا گوہر شب چراغ ہے یہ
کیا لالے کو نسبت اپنے دل سے
یعنی کہ تمام داغ ہے یہ
در گزرے ہم ایسی زندگی سے
دنیا میں اگر فراغ ہے یہ
پھر اتنی درنگ کیا ہے ساقی
مے ہے یہ اور ایاغ ہے یہ
ایسا گیا مصحفیؔ جہاں سے
یارو مرے دل پہ داغ ہے یہ
جو پھر نہ کہا کسو نے اتنا
اس گم شدہ کا سراغ ہے یہ
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست