یہ سماں یہ چین دنیا میں کبھی ملتا نہیں

مصحفی غلام ہمدانی


دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں
یہ سماں یہ چین دنیا میں کبھی ملتا نہیں
دیکھیو نفرت کہ میرا نام گر لیوے کوئی
روبرو اس کے ، تو پھر وہ اس سے بھی ملتا نہیں
کیا کروں نا سازی طالع کا میں شکوہ کہ آہ
جس کو جی چاہے ہے میرا اس کا جی ملتا نہیں
کھو کے مجھ کو ہاتھ سے سنتے ہو پچھتاؤ گے تم
مانو کہنا بھی کہ مجھ سا آدمی ملتا نہیں
کس طرف جاتا رہا کیا جانے وہ وحشی مزاج
ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم اور مصحفیؔ ملتا نہیں
فہرست