اس کے جو جو کہ فوائد ہیں خود دیکھتے
جاؤ
سچ کہا ہے یہ کسی نے کہ پیو اور
پلاؤ
ضبط سرکار میں ہونے کے لیے چھوڑ نہ
جاؤ
خوب ہی کھاؤ زر و مال کو اور خوب
اڑاؤ
تم میں اور غیر میں جو شب کو ہوئی ہے صحبت
خود کہے دیتا ہے وہ آپ کی آنکھوں کا
جھکاؤ
بیٹھنے کے نہیں قابل یہ سرائے ویراں
یاں سے توشے کے اٹھانے کے عوض ناؤ
اٹھاؤ
میں ہوں مخمور مجھے تاب کہاں ہاں ساقی
صاف ہو درد ہو جلدی سے جو مل جائے تو
لاؤ
نہیں بیمار کو تکلیف زیادہ دیتے
اپنی آنکھوں کو مرے سامنے اتنا نہ
جھکاؤ
دل میں آ بیٹھیے اور سیر دو عالم کیجے
ہے بہت دور کا اس منزل ویراں سے
دکھاؤ
منہ سے گر بات نکل جائے تو آفت آ جائے
جو کہیں چپکے سنے جاؤ زباں کو نہ
ہلاؤ
میں کہاں اور کہاں رات کا آنا پر ہاں
تیرے گھر سے تو بہت غیر کے گھر کا ہے
لگاؤ
اکھڑے جاتے ہیں قدم دیکھ وہاں کی رنگت
اپنا اس در پہ ہوا ہے نہ کبھی ہو گا
جماؤ
دل کی آبادی کی اب فکر ہے بالکل ناحق
اب تو یاں روز ہی ہوتا ہے سپہ غم کا
پڑاؤ
بعد اک عمر کے گر عرضِ تمنا کیجے
وہ بگڑ کر یہی کہتے ہیں کہ باتیں نہ
بناؤ
گرچہ یہ جھوٹ فسانا ہے ولے ہے دلچسپ
کہتے ہیں اپنی کہانی مجھے تم روز
سناؤ
ہوں اگر اس کے عوض نیم نگہ کا خواہاں
ہنس کے کہتے ہیں کہ کچھ قیمت دل اور
گھٹاؤ
اول عشق ہے دل کب ہے سمجھنے والا
ابھی زوروں پہ ہے اس بحر پر آفت کا
چڑھاؤ
حال بھی کہتے اگر ہوش ٹھکانے ہوتے
یاں تو حیرت ہے کہ تم اور مجھے پوچھنے آؤ
دم نکلنے کا الم کس سے سہا جاتا ہے
حرف تم جانے کا اے جان زباں ہی پہ نہ
لاؤ
ان کو تو پاس محبت نہیں اصلاً لیکن
نبھ سکے تم سے اگر حضرتِ دل اور
نبھاؤ
زخم ہجراں کی نہیں اور تو دنیا میں دوا
مندمل وصل کے مرہم سے تو ہوتا ہے یہ
گھاؤ
کب اسے دیدۂ تر دعویٰ ہم چشمی ہے
آٹھ آٹھ آنسو نہ تم ابرِ بہاری کو
رلاؤ
ان کے آنے کے تصور میں یہی کہتا ہوں
اے شبِ وعدہ نہ ہو صبح وہ کرتے ہیں
بناؤ
واں کھپت ہی نہیں کیا جنسِ وفا لے جائیں
ان کی سرکار میں اک جور و ستم کا ہے
بناؤ
اب ہو مجروحؔ محبت سے بہت گھبراتے
ہم تو پہلے ہی یہ کہتے تھے کہ دل کو نہ
لگاؤ