جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے

فیض احمد فیض


رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
دل رہین غمِ جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفل ہستی
اے غمِ دوست! تو کہاں ہے آج
ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے
وقف حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
فضائے دل پر اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریب زیست سے قدرت کا مدعا معلوم
یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست