دے آگ ابھی شعلۂ آواز قفس کو

مرزا رفیع سودا


کیجیے نہ اسیری میں اگر ضبط نفس کو
دے آگ ابھی شعلۂ آواز قفس کو
بہہ جاؤے لہو ہو کے دل قافلہ سالار
تعلیم دے نالہ جو مرا بانگ جرس کو
پہنچے ہے نم داغِ جگر تا سرِ مژگاں
شاداب میں رکھتا ہوں سدا آگ سے خس کو
پھرتا ہے ادھر زلف میں شانہ تو ادھر دل
یہ دزد نہ لایا کبھو خاطر میں عسس کو
اے عشق نہ فرہاد بچا تجھ سے نہ پرویز
با خاک برابر تو کیا ناکس و کس کو
لے سکتے نہیں سانس تری کو کے مقید
تا خونِ جگر بیچ نہ غوطہ دیں نفس کو
ترغیب نہ کر سیرِ چمن کی ہمیں سوداؔ
ہر چند ہوا خوب ہے واں لیک ہوس کو
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست