ایک بچہ اور جگنو کی باتیں
سناؤں تمہیں بات اک رات کی
کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی
چمکنے سے جگنو کے تھا اک سماں
ہوا پر اڑیں جیسے چنگاریاں
پڑی ایک بچہ کی ان پہ نظر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر
چمکدار کیڑا جو بھایا اسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپایا اسے
وہ جھم جھم چمکتا ادھر سے ادھر
پھرا کوئی رستہ نہ پایا مگر
تو غمگین قیدی نے کی التجا
جگنو
اے چھوٹے شکاری مجھے کر رہا
خدا کے لیے تو مجھے چھوڑ دے
میری قید کے جال کو توڑ دے
بچہ
کروں گا نہ آزاد اس وقت تک
کہ میں دیکھ لوں دن میں تیری چمک
جگنو
چمک میری دن میں نہ دیکھو گے تم
اجالے میں ہو جائے گی وہ تو گم
بچہ
ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم تجھے
اجالے میں دن کے کھلے گا کمال
کہ اتنے سے کیڑے میں کیا ہے کمال
دھواں ہے نہ شعلہ نہ گرمی نہ آنچ
چمکنے کی تیرے کروں گا میں جانچ
جگنو
یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب
کہ ذرہ کو چمکائے جوں آفتاب
مجھے دی ہے اس واسطے یہ چمک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹک
نہ الھڑ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال