یہ کیسا جال پھیلا ہوا ہے

باقی صدیقی


ترا غم ہر طرف چھایا ہوا ہے
یہ کیسا جال پھیلا ہوا ہے
خوشی ہے دے فریب زندگانی
کہ تجھ پر اعتبار آیا ہوا ہے
ازل سے ہے پریشاں زندگانی
یہ عقدہ کس کا الجھایا ہوا ہے
دلوں میں فاصلہ اتنا نہیں ہے
زمانہ درمیاں آیا ہوا ہے
بہانے لاکھ ہیس جینے کے باقیؔ
مگر دل ہے کہ گھبرایا ہوا ہے
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
ہزج مسدس محذوف
فہرست