آشوب وحدت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں

جون ایلیا


فرقت میں وصلت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
آشوب وحدت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
روح کل سے سب روحوں پر وصل کی حسرت طاری ہے
اک سر حکمت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
بے احوالی کی حالت ہے شاید یا شاید کہ نہیں
پر احوالیت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
مختاری کے لب سلوانا جبر عجب تر ٹھہرا ہے
ہیجان غیرت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
بابا الف ارشاد کناں ہیں پیش عدم کے بارے میں
حیرت بے حیرت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
معنی ہیں لفظوں سے برہم قہر خموشی عالم ہے
ایک عجب حجت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
موجودی سے انکاری ہے اپنی ضد میں ناز وجود
حالت سی حالت برپا ہے اللٰہ ہو کے باڑے میں
مستفعِلن مستفعِلن مستفعِلن مستفعِلن
رجز مثمن سالم
فہرست