ان کا بھی کام کرنا اپنا بھی کام کرنا

جگر مراد آبادی


ہر دم دعائیں دینا ہر لحظہ آہیں بھرنا
ان کا بھی کام کرنا اپنا بھی کام کرنا
ہاں کس کو ہے میسر یہ کام کر گزرنا
اک بانکپن سے جینا اک بانکپن سے مرنا
جو زیست کو نہ سمجھیں جو موت کو نہ جانیں
جینا انہیں کا جینا مرنا انہیں کا مرنا
تیری عنایتوں سے مجھ کو بھی آ چلا ہے
تیری حمایتوں میں ہر ہر قدم گزرنا
ساحل کے لب سے پوچھو دریا کے دل سے پوچھو
اک موج تہ نشیں کا مدت کے بعد ابھرنا
اے شوق تیرے صدقے پہنچا دیا کہاں تک
اے عشق تیرے قرباں جینا ہے اب نہ مرنا
ہر ذرہ آہ جس کا لبریز تشنگی ہے
اس خاک کی بھی جانب اے ابرِ تر گزرنا
دریا کی زندگی پر صدقے ہزار جانیں
مجھ کو نہیں گوارا ساحل کی موت مرنا
رنگینیاں نہیں تو رعنائیاں بھی کیسی
شبنم سی نازنیں کو آتا نہیں سنورنا
اشکوں کو بھی یہ جرأت اللہ ری تیری قدرت
آنکھوں تک آتے آتے پھر دل میں جا ٹھہرنا
اے جان ناز آ جا آنکھوں کی راہ دل میں
ان خشک ندیوں سے مشکل ہو کیا گزرنا
ہم بے خودان غم سے یہ راز کوئی سیکھے
جینا مگر نہ جینا مرنا مگر نہ مرنا
کچھ آ چلی ہے آہٹ اس پائے ناز کی سی
تجھ پر خدا کی رحمت اے دل ذرا ٹھہرنا
خونِ جگر کا حاصل اک شعرِ تر کی صورت
اپنا ہی عکس جس میں اپنا ہے رنگ بھرنا
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست