یہ وہ شمع تھی جو بھڑک اٹھی مری آہ نیم کشیدہ سے

سراج الدین ظفر


کوئی رنج ہے نہ شکایتیں مجھے اپنے ہوش پریدہ سے
یہ وہ شمع تھی جو بھڑک اٹھی مری آہ نیم کشیدہ سے
مری وحشتوں کی ہے انتہا کہ کسی کا حسن ہے رونما
کبھی میرے دامن چاک سے کبھی میری جیب دریدہ سے
میں نمود حسن الست ہوں میں چراغ عشق بدست ہوں
یہ تجلیات بہار ہیں مرے رنگ و بوئے پریدہ سے
تری یاد میری انیس ہے تری یاد میری جلیس ہے
مری زندگی کی نمود ہے تری آرزوئے تپیدہ سے
میں حرم میں محو نیاز تھا میں بتوں میں سجدہ طراز تھا
کبھی امتیاز نہ ہو سکا مرے ذوق ہجر چشیدہ سے
کوئی آرزوئے دلی سراجؔ مراد کو نہ پہنچ سکی
کوئی پھول بار نہ پا سکا مری کشت برق رسیدہ سے
متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن
کامل مثمن سالم
فہرست