مجھ کو شکایتیں ہیں نسیم بہار سے

سراج الدین ظفر


لائی نہیں پیام کوئی زلفِ یار سے
مجھ کو شکایتیں ہیں نسیم بہار سے
کھیلا ہو جو درازی گیسوئے یار سے
وہ کیا ڈرے گا طول شبِ انتظار سے
آہستہ اے نسیم کہ یہ زندگی مری
ملتی ہوئی ہے شمع سرِ رہ گزار سے
میرا ہی ایک عکس ہے کیا طور کیا کلیم
دیکھے کوئی مجھے نگہ اعتبار سے
اک داغ ہی سہی ٹھہر اے مرگِ ناگہاں
لے جائیں کچھ تو عالم ناپائیدار سے
مجھ کو مٹائے گردشِ لیل و نہار کیا
باہر ہے عشق گردشِ لیل و نہار سے
وہ دل کے آئنے میں رہے اور مری نظر
آگے بڑھی نہ آئنہ اعتبار سے
ہم بیخودان عشق سے کیا پرسش بہار
پوچھو ہمارے پیرہن تار تار سے
میری طرح انہیں بھی نہ رسوا کرے ظفرؔ
ڈرتا ہوں اپنے نالۂ بے اختیار سے
فہرست