دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے

مرزا غالب


رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلات میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂِ بلبل کو بے اثر
پردے میں گل کے لاکھ جگرِ چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست